82

ماں ہر دکھ سکھ کی ساتھی

وقت ہے جھونکا ہوا کا اور ہم فقط سوکھے پتے
کون جانے اگلے دسمبر تم کہاں اور ہم کہاں
اشرف ہراج ممبر بی او جی فیڈرل بورڈ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی ایک ندی کی صورت اختیار کرتی جا رہی تھی اور میں اس ندی میں بھیگتا جا رہا تھا۔ کیونکہ اس دن وہ ایک گھنے سایہ دار درخت کی چھاؤں سے محروم ہو چکا تھا۔ اسکی آنکھیں نیچے تھیں اور وہ پلکیں جھکا کر مجھ سے باتیں کرتا جا رہا تھا مگر اسکی آواز میں عجیب سی خاموشی اور درد محسوس ہو رہا تھا۔ باتیں ہچکولے کھا رہی تھیں اور جملے آواز سے بے ربط ہوتے جا رہے تھے۔ بے ربط بھی ایسے کہ جیسے ایک معصوم بچہ کہیں کھو گیا ہو اور اس سے کوئی اجنبی اس کے گھر کا پتہ معلوم کر رہا ہو اور وہ معصوم اپنے والد کا نام بتا کر گھر کے دروبام کی سوچ میں گم ہو کر اپنی والدہ کی جدائی میں ہچکیاں لینا شروع کر دے۔ اللہ اکبر یاد رکھیں ہمیں جب بھی اچانک کوئی حادثہ پیش آ جائے یا چوٹ لگ جائے تو ہماری زبان سے اللہ کے نام کے بعد ایک ہی لفظ نکلتا ہے اور وہ بھی بار بار نکلتا ہے اور وہ لفظ یہ ہے۔ ماں جی۔ اماں جی۔ امی جی یا پھر آج کے دور میں ماما۔ اشرف ہراج باہر سے تو خاموش تھا مگر اندر سے اپنی والدہ کی جدائی میں چور چور دکھائی دے رہا تھا۔اسکی باتوں میں کہر کا غضب تھا اور پچاس برس کی عمر کو پہنچ کر بھی والدہ کی گود میں بیٹھا اپنے رب سے کچھ مانگ رہا تھا۔ مجھے معلوم تھا وہ کیا مانگ رہا تھا مگر اشرف بھائی جس کی التجا آپ کر رہے تھے وہ کبھی واپس نہیں آ سکتی۔ اللہ پاک نے ہمیں اس عارضی دنیا میں بھیجا اور واپس اسی کے پاس جانا ہے اور پھر دوبارہ واپسی کا گمان بھی محال ہے۔ ماں کے ہاتھوں کا دیا گیا ایک روپیہ بھی ایک لاکھ محسوس ہوتا ہے۔ اشرف بھائی بتاتے ہیں کہ میں پنڈی اسلام آباد کا مکین ہوں اور میری ساری فیملی خانیوال میں صدیوں سے رہ رہی ہے۔ کہتے ہیں میری والدہ کو معلوم ہے کہ میرے پاس اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے مگر میں جب بھی راولپنڈی سے خانیوال جاتا تو جب واپس آنے سے پہلے ان کے پاس بیٹھ کر ان کو الوداع کہتا تو مجھے کہتی تھیں یہ کچھ پیسے رکھ لو واپسی پر گاڑی میں پیٹرول ڈلوا لینا۔ بس یہ بات بول کر اشرف ہراج پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ وہ اپنے آنسوؤں کو باہر آنے سے روک تو رہا تھا مگر ماں کی جدائی آنسوؤں کو دریا میں تبدیل تو کر سکتی ہے مگر اسے خشک ہر گز نہیں کر سکتی۔ اشرف بھائی کہتے ہیں کہ میری اولاد گھر کے کونوں کھدروں میں بیٹھ کر دادی کی تصویر کو دیکھ کر سارا دن کبھی بھیگی پلکوں کے ساتھ تو کبھی خشک چہرہ لیے غم کی دلدل میں آہستہ آہستہ نیچے جا رہی ہے۔ اشرف بھائی نے ایک فقرہ بولا جس نے مجھے بھی رونے پر مجبور کر دیا اور وہ الفاظ یہ تھے۔شاہد بھائی جب سے والدہ فوت ہوئی ہیں میں انکے قرآن اور اس قرآن کے غلاف کو بار بار چومتا ہوں۔ مجھے عجیب سا سکون اور اور اماں کے قرآن اور غلاف میں جنت کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ اللہ اکبر اللہ اکبر۔
اب کے برس ایسا قحط پڑا ہے اشکوں کا کہ آنکھ نم نہ ہوئی خوں میں ڈوب کر
وہ کہتے ہیں کہ وفات سے چند دن پہلے برادری کے ہر گھر میں گئیں اور سب کو خوب وقت دیا۔ جس گھر میں کئی ماہ سے نہیں گئی وہاں بھی چلی گئیں اور بہترین انداز میں گفتگو کر کے کئی گھنٹوں بعد واپس گھر لوٹیں۔ ڈاکٹر نے جب چیک کیا تو ڈاکٹر سے کہتی ہیں کہ ڈاکٹر صاحب میں روزہ رکھ سکتی ہوں تو ڈاکٹر نے کہا ماں جی آپ سارے روزے رکھیں آپ کو کوئی خاص مرض لاحق نہیں ہے۔ اس جنتی ماں نے ساری زندگی نہ نماز چھوڑی اور نہ روزہ ترک کیا بھلا وہ روزے کے بغیر کیسے رہ سکتی تھیں۔ سارے روزے اور تراویح بھی اہتمام کے ساتھ ادا کرتی رہیں۔ ڈاکٹر کی دوا کے بعد دل میں درد اور سانس کا رکنا ختم ہو گیا۔ جب یہ بات اشرف بھائی کو معلوم ہوئی تو وہ اللہ کا ڈھیروں شکر ادا کر کے خوش ہو گئے۔ ابھی اعتکاف بیٹھنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ رات کو غیر محفوظ نمبروں سے انہیں کالز آنے لگیں مگر چونکہ وہ بہت تھکے ہوئے تھے اس لیے انہوں نے بہت سی کالز نظر انداز کر دیں مگر ایک ان نون نمبر سے بار بار کالز آ رہی تھیں تو انہوں نے وہ اٹینڈ کر لی۔ وہ گاؤں کے کسی نوجوان کی کال تھیں اور اس کے ایک فقرے نے اس ماں کے لخت جگر کو ہلا کر رکھ دیا۔ اور وہ جملہ یہ تھا آپ کی والدہ اللہ میاں کے پاس چلی گئیں ہیں۔ یہ سن کر اشرف بھائی کو کمرے کی دیواریں زلزلے کی طرح ہلتی ہوئی محسوس ہوئیں اور پھر میری بہن اور بھابی کی کال آئی اور انہوں نے بہترین انداز میں کہا کہ آپ کی والدہ کی طبیعت کافی ناساز ہے جلدی سے گھر آ جائیں۔ مگر اشرف بھائی کو پہلے سے معلوم تھا کہ وہ چھاؤں سے محروم ہو چکے ہیں جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کی دعاؤں والی چھاؤں سے جدا ہوئے تھے اس کے بعد جب کوہ طور پر جانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا۔ مفہوم۔ موسیٰ آج کے بعد زرا سنبھل کر آنا اب آپ کی والدہ نہیں رہیں جو آپ کے لیے ہر وقت دعا کیا کرتی تھیں۔
اس مفہوم کو اپنے پلے باندھ لیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو یہ شرف حاصل نہیں تھا کہ وہ اللہ کے پاس بیٹھ کر ان سے باتیں کر سکے۔ حضرت موسیٰ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ اللہ کے پاس بیٹھ کر بہترین انداز میں گفتگو کرتے تھے مگر ماں کا مقام دیکھیں کہ حضرت موسیٰ کو بھی یہ کہ دیا کہ اب ذرا سنبھل کر قدم رکھنا کیونکہ اب گھنی چھاؤں والے درخت کی ٹہنیاں اور سبز پتے گر چکے ہیں۔اشرف ہراج کی والدہ کی تاریخ پیدائش 1939 تاریخ وفات 16 اپریل 2023 اور 25 رمضان المبارک۔ ابھی تو اس والدہ کے گھر والے ڈھیروں آنسوؤں کے ساتھ رو رہے ہیں۔مگر ایک وقت آئے گا جب اندر کا دریا رو رو کر ختم ہو جائے گا تو اس کے بعد خشک آنسوؤں سے ہر وقت روتے ہوئے دکھائی دیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔کسی کے یوں بچھڑنے پر
۔۔۔۔۔۔۔۔کسی کے یاد آنے پر
۔۔۔۔۔۔۔ بہت سے لوگ روتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔کہ رونا اک روایت ہے
۔۔۔۔۔۔۔محبت کی علامت ہے

میں ان پر پیچ راہوں پر
غم جاناں سے گھبرا کر
روایت توڑ جاتا ہوں۔۔۔۔۔ تمہاری یاد آنے پر میں اکثر مسکراتا ہوں۔
اس درد بھری سچی کہانی کو ہر وہ شخص اپنے اندر محفوظ کر لے کیونکہ یہ کہانی تو ہر گھر کی کہانی ہے۔ اللہ پاک سب کے والدین کو سلامت رکھے اور جن کے والدین یہ فانی دنیا چھوڑ گئے ان سے پوچھیں انکی عیدیں کیسے گزرتی ہیں۔ انکے بچوں کی شادی کے سب تہوار خوشی کے بجائے غموں میں ڈھل جاتے ہیں۔ جاتے ہوئے کچھ الفاظ میں گندھی ہوئی تلخ تحریر سنیں مگر خاموشی کے ساتھ۔
یہ عید تو پھر سے لوٹ آئی
جو بچھڑ گئے کب لوٹیں گے

وہ جن سے گھر کی رونق تھی
وہ کیسے ہم سے روٹھ گئے
وہ چاند سا جن کا چہرہ تھا
وہ آنکھوں سے کیوں دور ہوئے

جب یاد ہمیں وہ آئیں گے
ہم کیسے آنسو روکیں گے

یہ عید تو پھر سے لوٹ آئی
جو بچھڑ گئے کب لوٹیں گے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں