123

سیدہ مصور صلاح الدین‘نعت گو شاعرہ

آپ 10 نومبر 1978 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئیں علم و فضل اور تصوف کے گھرانے سے تعلق ہے اور علم و ادب انہیں ورثے میں ملا ہے والد صاحب سید محمد صلاح الدین کے کاروبار کے سبب بچپن میں متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر ہوئے اور میٹرک 1994 میں شیخ زید بن عرب پاکستانی اسکول ابو ظہبی سے مکمل کیا۔بعد ازاں پاکستان واپس لوٹیں اور پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کیا نعت خوانی کا شغف بچپن سے ہی تھا خوبصورت آواز کی بدولت پاکستان اور ابوظہبی کے اسکولوں میں مختلف انعامات حاصل کئے۔عرصہ تین سال سے نعت گوئی کی طرف مائل ہوئیں اور یہاں بھی نعت کے ادبی حلقوں میں اپنے منفرد لب و لہجے اور پر تاثیر کلام کی وجہ سے مقام بنانے کی ساعی ہیں۔ان کی شعری عمر کم لیکن ان کی نعتوں میں ادب،خلوص، احترام فنی مہارت اور جدید اسلوب واضح جھلکتا ہے۔اظہار لطافت، تلازمہ کاری ان کی شاعری کا بہترین خاصہ ہے۔جس کے باعث انہوں نے نعت کمیونٹی کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے۔آپ کی شاعری میں جہاں مصارع اور اشعار جدید تراش کے حامل ہوتے ہیں وہیں ان میں خلوص و ادب کی چاشنی بھی بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔

محترمہ کی تمام نعوت دلکش اور منفرد انداز ہونے کی وجہ سے قارئین اور سامعین دونوں کے دلوں میں حب رسولؐ کے پھول اگاتیں ہیں۔جو کسی بھی نعت گو شاعرہ کے لئے با عث فخر اور اعزاز ہے۔ حال ہی میں ان کے ساتھ ہونے والی طویل نشست میں لیا جانے والا انٹرویو ملاحظہ کیجئے۔ آپ کو نعت خوانی سے لگاؤ کس عمر سے ہوا؟ کے جواب میں کہا میرے دادا محترم پیرزادہ سید محمد سلام الدین نصیری چشتیہؒپیر نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ کے خلیفہ تھے بچپن سے ہی تصوف سے منسلک علمی اور فکری تربیت کی بدولت بزرگان سے ایک خاص عقیدت رہی۔نعت خوانی بچپن سے ہی کرنے کی وجہ سے اسکول اور اہل علاقہ میں ایک نام پیدا ہو گیا

کئی با ٹی وی سے بھی نعت خوانی کی آفر آئی مگر گھریلو ماحول کی وجہ سے اجازت نا ملی میٹرک میں شیخ زید بن پاکستان کالج کے زیر اہتمام ہونے والے نعتیہ مقابلے میں بھی پوزیشن حاصل کی اور پاکستان واپس آ کر بھی انعامات کا سلسلہ جاری رہا۔مگر پھر شادی کے بعدگھریلو امور اور ذمہ داریوں نے ہر فن کو خیر آباد کہہ دیا۔اور بچوں کی تربیت کی طرف متوجہ ہو گئی۔ماشاء اللہ دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں بڑے صاحبزادے حافظ قرآن بن چکے اور دوسرے صاحبزادے ابھی حفظ کر رہے ہیں اللہ ان سب کی بہترین تربیت کی ذمہ داری پوری کرنے میں میری مدد فرمائیں آمین شاعری کا شوق اوّل عمری سے تھا مگر تب عشقیہ شاعری ہی پیش نظر تھی جسے کہ شادی کے بعد مکمل طورپر خیر آباد کہہ دیا۔ 2018 میں روحانی سفر شروع ہوا اور روحانیت خون میں شامل ہونے کی وجہ سے اس طرف مائل ہوئی

درود کی کثرت کی اور قلم اٹھایا شروع میں بہت سے کالم لکھے جو آج بھی فیس بک پر موجود ہیں۔اللہ سے محبت بیان کرتے کرتے معلوم ہی نہیں ہوا کس وقت نعت کے لئے قلم اٹھایا اور پھر قلم پر عطا کا معاملہ شروع ہوا اس معاملے میں میں اللہ کی بہت شکر گزار ہوں کہ اس ذات نے مجھے ہمیشہ اچھے لوگوں سے ملوایا۔سوشل میڈیا سے آرٹس کونسل کا سفر محترمہ تسلیم اکرام کے ذریعے ہوا جس میں میرے استاد محترم عبد الرحمن واصف سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور پہلی ڈھائی مصرعی نظم کی اصطلاح کو نعت میں استعمال کیا۔یہ ایک بلکل جدید طرز شاعری ہے جو اس سے پہلے نعت گوئی میں استعمال نہیں ہوئی تھی۔بعد ازاں کیونکہ میرا قلم صرف نعت کے لئے مختص تھا۔تو مقصود علی شاہ صاحب کی زیر سرپرستی نعت کے اشعار کو مزید تقویت ملی۔

محترم مقصود علی شاہ صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں وہ نعتیہ کلام میں دور حاضر کے سب سے بہترین نعت گو شاعر ہیں محترم کو تین بار صدارتی ایوارڈ سے نوازہ گیا محترم کی خدمات کو صوبائی سطح پر بھی پزیرائی حاصل رہی۔ میرے اس پورے سفر میں بلا شبہ میرے والدین کی دعا اور تربیت کا عمل دخل ہے مگر کسی بھی عورت کے لئے اس کے گھر کا مکمل ہونا اس کے شوہر کے بہترین اخلاق کی بدولت ہے اور مجھے یہ دولت ہمیشہ نصیب رہی اور موجودہ صورت حال میں میری ہر کامیابی میں ان کی مرہون منت ہے۔میں ان خوش نصیب خواتین میں سے ایک ہوں جس کی زندگی میں مرد سے منسلک چاروں رشتے باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کی حیثیت سے خوبصورت ترین ہیں۔ نعتیہ شاعری میں اب تک کتنے ایوارڈز حاصل کر چکی ہیں؟

مجھے اب تک تین ایوارڈز نعتیہ شاعری پر مل چکے اور یہ بھی کسی شاعرہ کے لئے اعزاز کی بات ہے کہ بزم ندرت و فکر کی جانب سے حضرت حسان بن ثابت ایوارڈ میرے نام ہوا جو ڈاکٹر فرحت عباس شاہ جیسے مسند شاعر کی طرف سے دیا گیا بزم تسلیم اور میلاد اسٹوڈیو کی جانب سے بہترین نعت گو شاعرہ کا ایوارڈ دیا گیا۔ الفان سے ٹی وی چینل کی جانب سے بھی یہ ایوارڈ میرے حصے میں آیا۔ الحمدللہ نعتیہ حلقوں میں مجھے جو عزت ملی وہ صرف میرے پروردگار کی عطا ہے۔ ان شاء اللہ نعتیہ مجموعہ بھی جلد کتابی شکل میں شائع کرنے کا ارادہ ہے۔جس کے لئے اپ سب سے دعا کی گزارش ہے۔ماضی کے شعرائی میں مجھے کسی بھی مقابلے کے بغیر مظفر وارثی صاحب کی شاعری اور انداز بیان پسند ہے انتہائی سادہ انداز میں شاعری کی مشکل ترین صنف کسی اور شاعر میں دستیاب نہیں۔

موجودہ دور کی شاعرات میں محترمہ صفیہ صابری اور محترمہ شگفتہ نعیم ہاشمی صاحبہ سے متاثر ہوں۔شعرائی حضرات میں مقصود علی شاہ صاحب اور محترم نسیم سحر صاحب کی نعت گوئی سے شدید متاثر ہوں۔آپ کس ادبی تنظیم سے وابستہ ہیں؟ میں فی الحال کسی تنظیم سے تعلق نہیں رکھتی اور مستقبل قریب میں بھی ایسا کوء ارادہ نہیں۔کیونکہ جیسے پاکستان میں تمام ادارے کرپشن اور سیاست کی نذر ہو چکے ویسے ہی ادب سے منسلک تنظیمیں بھی مختلف گروہ بندی کا شکار ہیں۔ اور ایک نعت گو شاعر کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے وہ توجہ اور یکسوئی ہے نعتیہ شاعری کو شعرا ئی شاعری کی صنف میں نہیں لاتے مگر میں کہتی ہوں یہ شاعری کی سب سے مشکل اور مستند صنف ہے جس میں مکمل قبولیت کی سند کے ساتھ اور حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا ہوتا ہے۔

خواتین شعرائی میں نعت گو شاعرات بہت کم ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ خواتین میں یکسوئی اور مکمل سکون کا فقدان ہے گھریلو ذمہ داریاں اور فطری بے صبرا پن انہیں اس صنف سے دور رکھتا ہے ہاں البتہ اپنی نازک طبیعت کے سبب خواتین عشقیہ شاعری میں کئی مقام پر مرد حضرات سے بھی آگے ہیں۔الحمدللہ مجھے فخرہے کہ مجھے مدحت مصطفی ؐنصیب ہوئی ور میں نے اپنے قلم کو صرف نعت گوئی کے لئے مختص کیا۔میری خوش نصیبی ہے کہ بہت کم وقت میں درود کی برکت سے مجھ بہترین اساتذہ ملے اور اللہ پاک نے اپنی توجہ سے مجھے نعت کا فن عطا کیا۔ ایک نعت کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
حسین چہرہ شمائل کا گوشوارہ ہے
کمال خلق خصائل کا اک شمارہ ہے
خیال خام ہے تیرے بغیر شنواء
تو کل جہان میں رحمت کا استعارہ ہے
عطا ہوء تجھے ندرت کتاب و حکمت کی
تو انبیاء کے دبستاں کا شاہ پارہ ہے
تو ابتدائے حقیقت کے وقت کا ناظر
تو سب جہانوں کی تخلیق کا اشارہ ہے
اے میرے خانہ خستہ خیال کے والی
تو میری آس ہے، امید ہے، سہارا ہے
ہے تیرا وصل ہی وجہِ وجودِ رنگِ حیات
ترا فراق تو اِک بجھ چکا شرارہ ہے
تو میرا حامی و ناصر، تو رہبر و مولا
کہ تیری یاد ہی منزل نما ستارہ ہے
مَیں بے قرار سی اِک موج بحرِ عصیاں کی
تو بادبان ہے، کشتی ہے، تو کنارہ ہے
تری عطا ہی کو زیبا ہے دو جہاں کی عطا
ترے کرم کا شفاعت پہ بھی اجارہ ہے
شعور کس کو ہے شاہا! تری حقیقت کا
ہمیں تو اتنا بہت ہے کہ تو ہمارا ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں