سرکاری کی طرح پرائیویٹ شعبے کو بھی پرکشش بنایا جائے

ضیاءالرحمن ضیا/وطن عزیز پاکستان میں ملازمتوں کے لیے دو اہم شعبے ہیں ایک شعبہ سرکاری ہے جس میں نیم سرکاری بھی شامل ہے کیونکہ اسے بھی سرکاری یا اس کے قریب تر سمجھا جاتا ہے جبکہ دوسرا شعبہ پرائیویٹ شعبہ ہے ۔ سرکاری شعبے کے بارے میں عوام الناس کا نقطہ نظر بہت اچھا ہے وہ سرکاری ملازمت کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں جبکہ پرائیویٹ شعبے کو عام طور پر اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ جو سرکاری ملازمت کر رہا ہو اسے تو برسرروزگار سمجھا جاتا ہے جبکہ پرائیوٹ ملازمت والا اگرچہ سرکاری ملازم سے زائد تنخواہ وصول کر رہا ہو اسے بے روزگار ہی خیال کیا جاتا ہے اور پرائیویٹ شعبے میں ملازمت کرنے والے سرکاری ملازمت کے لیے ہاتھ پاو¿ں مارتے رہتے ہیں ۔ یہاں تک کہ سرکاری ملازمت کو اللہ کی طرف سے روزی ملنا خیال کیا جاتا ہے اور اس پر شکر بھی ادا کیا جاتا ہے جبکہ پرائیویٹ ملازمت کو تو فضول خیال کر کے ہمیشہ ناشکری کے الفاظ ہی ادا کیے جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری شعبے میں کافی مراعات ملتی ہیں ، سب سے بڑی رعایت تو یہ ہے کہ یہ ملازمت مستقل ہوتی ہے اور ساٹھ سال کی عمر تک کوئی ان ملازمین کو اپنے کسی ذاتی مقصد کی خاطر ملازمت سے فارغ نہیں کر سکتا مگر یہ کہ کوئی ملازم سنگین نوعیت کا جرم یا غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے، اس کے علاوہ ان کی ملازمت مقررہ میعاد تک بلا روک ٹوک جاری رہتی ہے ۔ سرکاری ملازمت کی یہی خوبی ہمارے اچھے اچھے پڑھے لکھے ، ذہین ، محنتی اور باصلاحیت نوجوانوں کو اپنی طرف اس طرح کھینچ لیتی ہے کہ انہیں اپنی صلاحیتوں کے زنگ آلود ہونے ، اپنی محنت کے بل بوتے پر ترقی کرنے اور اپنی ذہانت کی وجہ سے دولت اور شہرت حاصل کرنے سے غافل کر دیتی ہے ۔ اس لیے کہ سرکاری ملازمت میں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ملازم اپنی محنت کے بل بوتے پر ترقی پائے یا اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے اسے کوئی مالی فائدہ حاصل ہو، بلکہ وہاں لگے بندھے قوانین ہیں جن کے مطابق انہیں ترقی ملتی ہے ، ان قوانین کے مطابق ہی ان کی تنخواہیں مقرر ہوتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات ایک کم پڑھا لکھا ، سست اور کاہل ملازم ، ذہین ، محنتی اور باصلاحیت ملازم سے زیادہ تنخواہ وصول کر رہا ہوتا ہے بلکہ عہدے میں بھی اس سے بڑے(Senior) درجے فائز ہوتا ہے کیونکہ یہاں صلاحیت و قابلیت کی بنا پر تنخواہ مقرر نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی کی محنت دیکھ کر ترقی دی جاتی ہے بلکہ یہ چیزیں عمر اور سروس کو دیکھ کر مقرر ہوتی ہیں یا اس میں ایک اہم عنصر جسے تلخ حقیقت بھی کہہ لیجیے کہ اگلے درجات میں ترقی کے لیے محنت اور کارکردگی کے علاوہ افسروں کی خوشنودی کا حصول بھی ضروری ہوتا ہے ، اگر افسر خوش ہیں تو آپ کی ترقی ہو جائے گی ورنہ وہ اپنے خاص ہتھیار استعمال کر کے ترقی روک لیتے ہیں یوں ملازم کی ساری محنت پر بیک جنبش قلم پانی پھیر کر رکھ دیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ سرکاری ملازمت کی خوبیوںمیں مفت طبی سہولیات ، تنخواہوں میں سالانہ اضافہ اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن وغیرہ ہیں ۔ یہ خوبیاں عوام کو سرکاری ملازمت کی طرف کھینچتی ہیں جس کی وجہ سے ہمارے اچھے اچھے باصلاحیت نوجوان ضائع ہو جاتے ہیں اور وہ ساری عمر جی حضوری میں گزار دیتے ہیں ۔ کئی نوجوان جو بڑی بڑی ڈگریاں اٹھائے چھوٹی چھوٹی سرکاری ملازمتوں کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں اگرچہ وہ اچھی پرائیویٹ ملازمت کر بھی رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے ذہنوں پر یہی خوف سوار ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت یہاں سے کسی پیشگی نوٹس کے بغیر ہی فارغ کیا جا سکتا ہے ۔ اگر وہ کوئی اپنا کام ، کاروبار وغیرہ کر سکتے ہو تو یہ ملازمتوں سے کہیں بہتر ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مو¿ثر قانون سازی کرے اور سرکاری شعبے کی طرح پرائیویٹ شعبے کو بھی مراعات دے ۔ جس طرح سرکاری محکمے ملک کو چلانے کے لیے ضروری ہیں اسی طرح پرائیویٹ شعبے میں قائم ادارے بھی ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں اور ان کے بغیر بھی ملک کا نظام چلانا ناممکن ہے ۔ اس لیے اس شعبے کی بہتری کے لیے بھی حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور اسے بھی اتنا پرکشش بنا دینا چاہیے کہ عوام بخوشی اس شعبے میں اپنی خدمات سرانجام دیں اور سرکاری شعبے پر بوجھ نہ بنیں ۔ اس کے لیے اس شعبے سے ٹیکس وغیرہ کم سے کم کیے جائیں اور ساتھ ہی پرائیویٹ اداروں کے مالکان و ذمہ داران کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ملازموں کو اپنی آمدن کے مطابق پرکشش تنخواہ دیں اور یک دم ملازمت سے فارغ کرنے کی بجائے کم از کم تین ماہ قبل نوٹس دیں تاکہ وہ ایک دم بے روزگار ہونے کی بجائے اس عرصہ میں اپنے لیے متبادل ملازمت تلاش کر لیں ۔ اس کے علاوہ حکومت خود بھی پرائیویٹ شعبے میں کام کرنے والوں کو طبی سہولیات فراہم کرے اور زیادہ عمر تک ملازمت کرنے کے بعد سبکدوش ہونے والے افراد کو معقول وظائف دے ۔ یوں عوام سرکاری شعبے کی طرف لپکنے کی بجائے پرائیویٹ شعبے کو بھی بخوشی اپنائیں گے اور پرائیویٹ شعبے میں رہتے ہوئے ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار نبھائیں گے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں