610

سرکاری تعلیمی ادارےاین جی اوز کی زد میں


دنیا کے تمام ممالک میں سرکاری اداروں کا قیام دکھائی دیتا ہے اور یہی سرکاری ادارے اس ملک کی پہچان ہوتے ہیں حکومتیں عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے اور ان کا معیار زندگی بلند کرنے کے لئے اپنے زیر انتظام مرکز سے لیکر یوسی کی سطح سرکاری اداروں کو قائم کرتی ہے اپنی مضبوطی و اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کے لئے کسی بھی ملک میں اسکا شعبہ تعلیم بنیادی اہمیت و مقام رکھتا ہے پاکستان میں بھی سرکار کے زیر انتظام چلنے والے اداروں کی اک طویل فہرست موجود ہے جن کے ذریعے عوام و امور ریاست کو چلایا جاتا ہے دنیا کے بیشتر ممالک اپنے سالانہ بجٹ میں سب سے زیادہ رقم شعبہ تعلیم کے لئے مختص کرتی ہے مگر پاکستان میں صورتحال دنیا اور بلکہ اپنے خطہ کے دیگر ممالک سے مختلف ہے ہمارا تعلیمی بجٹ برائے نام ہوتا ہے پاکستان میں شعبہ تعلیم کو ہر دور میں نئے نئے تجربات کا سامنا کرنا پڑا ملک بھرمیں دو طرز کا نظام تعلیم متعدد خوبیوں و خامیوں سے بھرا چل رہا ہے ایک طرف نجی نظام تعلیم کا ڈھانچہ بھاری فیسوں کے سہارے کھڑا ہے تو دوسری طرف سرکاری تعلیمی نظام درجنوں نقائص کے باوجود فری و سستی تعلیم فراہم کر رہا ہے پاکستان میں شعبہ تعلیم سے لاکھوں خاندان وابستہ ہیں میں آج سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی و اساتذہ کے طرز عمل پر بات نہیں کرنا چاہتا اس معاملے کو کسی موقع پر سامنے لاؤں گا میں آج صرف پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے سرکاری تعلیمی اداروں و حکمرانوں کی پالیسیوں کو سامنے لانا چاہتا ہوں صوبہ پنجاب کو ملک بھر میں ہر لحاظ سے اہمیت حاصل ہے اگر آسان لفظوں میں کہا جائے کہ ملک کے اقتدار کے حصول کی چابی صوبہ پنجاب کے پاس ہے پنجاب کو فتح کئے بغیر اقتدار تک پہنچنا ناممکن ہے۔ صوبہ پنجاب میں یونین کونسل کی سطح تک سرکاری تعلیمی ادارے موجود ہیں ماضی کے ان درخشاں تعلیمی اداروں کے وقار کو ٹھیس پہنچانے میں ہماری وفاقی و صوبائی حکومتوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی جس سبب آج سرکاری تعلیمی ادارے ویران و نجی تعلیمی ادارے طلبہ طالبات سے بھرے پڑے ہیں کیونکہ ہمارے وفاقی و صوبائی حکومتوں نے سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو وہ مقام ہی نہیں دیا جس کے وہ حقدار تھے

صوبہ پنجاب بھر میں مسلم ہینڈز اوردل نامی این جی اوز کے حوالے سے ہزاروں پرائمری مڈل و ہائی سرکاری تعلیمی اداروں کو انکے حوالے کیا جا رہا ہے اس مقصد کے لئے پنڈی ڈویژن کے سینکڑوں سکول شامل ہیں ویسے کمال مہارت سے ایسے سرکاری سکولز کو ان این جی او کے حوالے کیا جا رہا ہے جو اہم و مرکزی جگہوں پر ہونے کے سبب انکے رقبے اربوں روپے مالیت کے ہیں کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ سرکاری تعلیمی اداروں کا کنٹرول کیوں کسی تنظیم کے حوالے کئے جا رہے ہیں

ان سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو حکومت نے اپنی بی ٹیم بنا رکھا ہے الیکشن کمیشن ہو چاہیے محکمہ شماریات ان اساتذہ کو شعبہ تدریس کو ترک کروا کر گلی گلی ووٹوں کے اندراج تو کبھی گھروں و اہل خانہ کی تعداد گننے پر لگا دیتی ہے بات یہی نہیں روکتی بلکہ زکوٰۃ کی لسٹیں مرتب کرنی ہوں یا الیکشن ان اساتذہ کی اضافی ڈیوٹیاں لگا دی جاتی ہیں اور طاقت ور یونین رکھنے والے یہ اساتذہ بھی چپ چاپ یہ سارے کام کرنے میں لگ جاتے ہیں وہ کبھی اجتجاج نہیں کرتے کہ ہم یہ ڈیوٹیاں نہیں کریں گے کیونکہ اب انھیں بھی شاہد اس طرح کام کرنے کی عادت و اضافی رقم کے حصول کا چسکا پڑ چکا ہے سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی کو کسی طور پر بھی مندرجہ بالا عوامل کے سبب تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا مگر ان حالات میں جہاں ملک میں مہنگائی کا جن دیو بن کر پاکستانی عوام کو کچل رہا ہے وہاں اب سابق دور حکومت و موجودہ نگران حکومت نے بھی صوبہ پنجاب کے سکولوں کو این جی او کے حوالے کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے جس سے فری تعیلم کا حصول کا باب بند ہو کر رہ جائے گا صوبہ پنجاب بھر میں مسلم ہینڈز اوردل نامی این جی اوز کے حوالے سے ہزاروں پرائمری مڈل و ہائی سرکاری تعلیمی اداروں کو انکے حوالے کیا جا رہا ہے اس مقصد کے لئے پنڈی ڈویژن کے سینکڑوں سکول شامل ہیں

ویسے کمال مہارت سے ایسے سرکاری سکولز کو ان این جی او کے حوالے کیا جا رہا ہے جو اہم و مرکزی جگہوں پر ہونے کے سبب انکے رقبے اربوں روپے مالیت کے ہیں کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ سرکاری تعلیمی اداروں کا کنٹرول کیوں کسی تنظیم کے حوالے کئے جا رہے ہیں اس سارے معاملے کے نتائج کیا نکلیں گے وہاں پڑھانے والے اساتذہ کا معاشی مستقبل کیا ہو گا فری تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے والدین کو کتنی فیس ادا کرنی پڑے گی ماہانہ کس ملک سے یہ نظام کاپی کر کے یہاں ٹھوک دیا گیا ہے میں جس بھی صوبائی حکومت ضلعی آفیسر سے ان سوالات کا جواب مانگتا ہوں تو جواب ملتا ہے صوبے سے آڈر آیا ہے ہمیں نہیں پتا۔

سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ متعدد خامیوں کے باوجود جہاں ہمارے لئے قابل قدر ہیں وہاں وہ ان ان سکولز میں دیگر ذمہ داریاں ادا کرنے والے بھی اہمیت کے حامل ہیں ہمیں انکے مستقبل کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے ان کے معاشی قتل کے منصوبے کو ترک کیا جائے سرکاری نظام تعلیم میں بہتری لائی جائے نہ کہ انھیں این جی او کے حوالے کر کے حکمراں اپنی زمہ داریوں سے غافل ہوں صوبہ پنجاب کے تعلیمی اداروں کے اساتذہ و عملہ پاکستان کے باسی بھی ہیں اپنا ووٹ بھی رکھتے ہیں لاکھوں اساتذہ کو ناراض کر کے صوبے کی کونسی سیاسی جماعت اقتدار تک پہنچ پائے گی 18 ماہ کے اقتدار میں ایک طرف عوام کو ناراض کر عوام پر مہنگائی کے بم برسا کر و دوسری طرف سرکاری اساتذہ کا وقار این جی او کے حوالے کر کے کیسے 21 اکتوبر کو اپنے لیڈر میاں نواز شریف کے استقبال کو پرجوش بنا سکیں گے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کو پنجاب کے سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو اپنے اساتذہ سمجھ کر انکا ساتھ دیں این جی اوز کی کارکردگی ملک بھر میں کہیں بھی تسلی بخش نہیں قوم کا مستقبل نوجوان نسل کی تعلیم تربیت این جی او کے حوالے کرنے سے منفی نتائج نکلیں گے سرکاری تعلیمی اداروں میں تعینات اساتذہ اپنے سرکاری سکولوں کو آباد کر کے محنت لگن سے خلوص سے اپنی کوتاہیوں کی تلافی کریں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں