کالج کی دوستی‘ہمیشہ ساتھ نبھائے 225

بیٹے کی جدائی کھا گئی گُھن کی طرح

ملک صبور میرا دایاں بازو ہے مگر جب بھی وہ اپنے اس لخت جگر کی جدائی کی بات کرتا ہے تو میرا یہ دایاں بازو دھیرے دھیرے بایاں سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ملک صبور ک

ے جسم سے طاقت ختم ہو رہی ہوتی ہے۔ بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ جوان اولاد والدین کی کمر توڑ کر رکھ دیتی ہے مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ ملک صبور بھائی کے

اس معصوم نے تمام گھر والوں‘ محلے والوں اور مجھ جیسے گنہگار کی کمر تک ہلا کر رکھ دی۔ زرا غور سے دیکھیں اس شہزادے کو جیسے بس ابھی جنت سے نکل کرآیا ہو اس

دھرتی ماں کو جنت بنانے اور ہاں واقعی ملک صبور کے اس پھول نما بیٹے نے گھر سے لیکر ہر اس جگہ کو جنت بنایا جہاں جہاں یہ خوبصورت پھول جاتا رہا۔ جب یہ بیٹا

زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا تو اس وقت بھی خوش و خرم اور صبر کا پہاڑ نظر آ رہا تھا۔ ڈھیروں انجیکشن اور ادویات کھانے کے بعد بھی مسکراتا رہا۔ کسی نے

کسی سے پوچھا کہ صبر جمیل کیا ہوتا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ”جب کوئی بے انتہا آزمایا جا رہا ہو اور اس کی زبان سے بار بار یہ جملہ ادا ہو۔(الحمدللہ الحمدللہ الحمدللہ) تو اسے

صبر جمیل کا نام دیا جاتا ہے”. یہ معصوم ملک بالاج زندگی اور موت کی چکی میں جب کئی ماہ سے پس رہا تھا تو اسکی مسکراہٹ یہ بتا رہی تھی کہ وہ الحمدللہ الحمدللہ کہ رہا ہے

مگر جب اسکا باپ بار بار آزمایا رہا تھا اور آج بھی آزمایا جا رہا ہے تو اس عظیم باپ کی زبان سے بالاج ملک کی وفات والے دن الحمدللہ کے الفاظ ہر لمحہ ادا ہو رہے تھے اور آج بھی

جب عید سر پر ہے۔ میرے بھائی اور دوست ملک صبور کا پہلے والا رمضان اپنے بیٹے کے ساتھ گزرا مگر۔
اب کے برس ایسا قحط پڑا ہے اشکوں کا
کہ آنکھ تر نہ ہوئی خوں میں ڈوب کر
ملک صبور کے آنسو تو خشک ہو گئے

ہیں مگر یاد رکھیں آنسو بے وجہ خشک نہیں ہوتے انہیں

نچوڑ کر خشک کیا جاتا ہے۔ اللہ پاک والدین اور بہن بھائیوں اور رشتے داروں کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین
اسکی جدائی کھا گئی گھن کی طرح ہمیں
ہم سخت جان پہلے تو یوں کھوکھلے نہ تھے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں