
حذیفہ اشرف
huzaifaashraf8340@gmail.com
03108340462
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ہونے والا وہ معاہدہ جس کے تحت پاک فوج کو مقدس مقامات کی حفاظت میں کردار دیا گیا، صرف دو ممالک کے تعلقات میں پیش رفت نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک بڑے موقع کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ معاہدہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر مسلم ممالک باہمی اعتماد، تعاون اور اشتراک کے ساتھ آگے بڑھیں تو وہ عالمی سطح پر ایک مؤثر اور طاقتور اتحاد تشکیل دے سکتے ہیں۔ مکہ مکرمہ کی حفاظت کا فریضہ ایک اعزاز بھی ہے اور ایک ذمہ داری بھی، اور اس موقع کو بنیاد بنا کر اسلامی دنیا ایک مشترکہ دفاعی اور اقتصادی نظام قائم کر سکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تعاون کو صرف سکیورٹی تعاون تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسے اقتصادی، ٹیکنالوجیکل، اور سفارتی میدانوں تک وسعت دی جائے۔
اگر او آئی سی کے تمام رکن ممالک اعتماد سازی، مشترکہ منصوبہ بندی اور دفاعی اتحاد کی سمت قدم بڑھائیں تو وہ دنیا کے بڑے طاقتور بلاکس کا متبادل بن سکتے ہیں۔ اسلامی دنیا کے پاس پہلے ہی بے پناہ وسائل، افرادی قوت اور دفاعی صلاحیتیں موجود ہیں، بس انہیں منظم اور مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔ مشترکہ انٹیلی جنس نظام، دفاعی خریداری کے لیے کنسورشیم، صنعتی شراکت داری اور آر اینڈ ڈی مراکز کے قیام جیسے عملی اقدامات سے ایک مضبوط بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
اس کے ساتھ اگر اقتصادی تعاون کو بھی فروغ دیا جائے، جیسے آزاد تجارتی معاہدے، توانائی منصوبے اور مشترکہ سرمایہ کاری کے فنڈز، تو اسلامی دنیا کی مجموعی جی ڈی پی چند سالوں میں کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ آج اگر مسلم ممالک اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر اتحاد کی طرف قدم بڑھائیں تو نہ صرف دفاعی بلکہ اقتصادی اور سفارتی لحاظ سے بھی دنیا کی بڑی طاقت بن سکتے ہیں۔ یہ عمل بلاشبہ چیلنجز سے خالی نہیں ہوگا — سیاسی اختلافات، بیرونی دباؤ، کرپشن اور تکنیکی کمی جیسے مسائل اس راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، مگر شفافیت، مشترکہ آڈٹنگ اور تنازعات کے حل کے نظام سے ان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ او آئی سی محض اجلاسوں اور قراردادوں سے آگے بڑھے اور عملی سطح پر مشترکہ پراجیکٹس شروع کرے۔ اسلامی دنیا کو ایک نئے وژن، مشترکہ دفاعی کمانڈ، اقتصادی خود انحصاری اور ٹیکنالوجی شیئرنگ کے نظام کی ضرورت ہے۔ اگر مسلم ممالک اپنی اجتماعی صلاحیتوں کو مربوط کر لیں تو یہ بلاک دنیا کی دوسری بڑی عسکری اور ایک مضبوط اقتصادی طاقت کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ یہ کوئی خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت بن سکتی ہے — اگر نیت خالص، ارادہ مضبوط اور اقدامات عملی ہوں۔