دنیا میں سب سے پہلا مصنوعی سیارہ 4 اکتوبر 1957کو Sputnik 1 کو کامیابی کے ساتھ زمین کے مدار میں روس نے بھیجا اور روس نے ہی 1959 میں بغیر انسان والے خلائی جہاز راکٹ کو چاند تک پہنچا 12 اپریل 1961ء کو روسی خلا نورد یوری گاگرین نے 108 منٹ خلا میں زمیں کے گرد چکر کاٹ کر خلا میں جانے والے پہلے انسان کا اعزاز حاصل کیا امریکہ جو روس کا بڑا حریف تھا جلد ہی اس دوڑ میں کود پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے 1969 میں (اپالو گیارہ کی) بحفاظت چاند کی سطح پر نہ صرف لینڈ کیا بلکہ نیل آرمسٹرانگ پہلا شخص تھا جس نے چاند پر پہلا قدم رکھا اور بزایلڈرین دوسرا انسان تھا جس نے اس کے ساتھ مل کر چاند پر چہل قدمی کی 1972 کو اپالو17 مشن ناسا کے چھ خلابازوں کے چاند پر اترنے کے ساتھ ختم ہو گیا اس پورے مشن کے دوران 24 خلابازوں نے چاند تک کا سفر کیا جن میں سے 12 کو چاند کی سطح کے مختلف مقامات پر اترنے کا موقع ملا لیکن دنیا صرف اور صرف نیل آرمسٹرانگ کو ہی جانتی ہے
کیونکہ سب سے پہلا قدم اس نے چاند کی سطح پر رکھا تھا اس سے ایک چیز کی بھی سمجھ آتی ہے کہ دنیا پہلے نمبر والے کو ہی جانتی ہے بعد والوں کو نہیں 14دسمبر 1972 کو اپالو17 کی واپسی کے ساتھ ہی انسانی مشن ختم کر دیا گیا اب اس دوڑ میں ہمارا پڑوسی ملک بھارت نہ صرف شامل ہوا ہے بلکہ چاند کی سطح پر کامیابی کے ساتھ پہنچنے والا دنیا کا چوتھا ملک بن گیا ہے بھارت نے اپنا خلائی پروگرام 1962 میں ایک تحقیقاتی ادارے (INCOSPAR) کی بنیاد رکھ کر کیا جس کا نام 1969 میں تبدیل کر کے انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اِسرو) رکھ دیا گیا اس کا ہیڈکوارٹر بنگلور میں ہے اور اس وقت اس کا سالانہ بجٹ ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد ہے اس میں ساڑھے 16 ہزار سے زیادہ سائنسدان کام کر رہے ہیں اس نے اپنے مشن کا نام چندریان مشن رکھا یہ سنسکرت کے دو لفظوں کا مجموعہ ہے
جس کا مطلب ہے چاند گاڑی یہ اس سلسلے کا تیسرا مشن ہے اس سے قبل 22 اکتوبر 2008 کو چندریان 1 مشن بھیجا گیا خلائی جہاز سے منسلک مون امپیکٹ پروب کو 14 نومبر 2008 کی شام 8 بج کر 6 منٹ پر کامیابی کے ساتھ علیحدہ کیا گیا تقریبا 25 منٹ کے سفر کے بعد بدقسمتی سے چاند کے جنوبی قطب کے قریب ٹکرا گئی اس طرح یہ مشن ناکام ہو گیا 2019 میں چندریان 2 مشن بھی ناکام ہو گیا تھا بھارت کا مشن چندریان 3 کامیابی سے چاند کے جنوبی حصے پر اتر گیا جس کے ساتھ ہی بھارت چاند کے تاریک حصے (جنوب) پر لینڈ کرنے والا پہلا ملک بن گیا میڈیا رپورٹس کے مطابق چندریان تھری مشن 14 جولائی کو روانہ ہوا تھا 10 دن تک زمین کے مدار میں موجود رہا
اور 5 اگست کو کامیابی سے چاند کے مدار میں داخل ہوا وکرم نامی لینڈر (بھارت نے وکرم نامی لینڈر کا نام اس پروگرام کے بانی ڈاکٹر وکرم سارا بھائی کے نام پر رکھ کر ان کو خراج تحسین پیش کیا)17 اگست کو پروپلشن موڈیول سے کامیابی سے الگ ہوا تھا جس کے بعد یہ چاند پر کامیابی سے اتر گیا ہے مشن کی کامیابی کے بعد بھارت چاند پر سافٹ لینڈنگ کرنے والا دنیا کا چوتھا جبکہ چاند پر پہنچنے والا دوسرا ایشیائی ملک بن گیا اس سے قبل امریکہ روس اور چین چاند کے خط استوا کے قریب سافٹ لینڈنگ کر چکے ہیں ان سب پر انڈیا کو برتری حاصل ہے وہ اس طرح چندریان 3 مشن پر انڈیا نے صرف 7.5 کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں جو بہت ہی کم ہیں جبکہ اس کے مد مقابل دیگر ملکوں کے پروگرام اس سے کئی گناہ مہنگے ہیں اسی لیے انڈین
گورنمنٹ پہلے ہی سے انڈیا نے اپنی پرائیویٹ خلائی صنعت کی تشہیر شروع کر دی ہے اس وقت انڈیا میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ پرائیویٹ خلائی کمپنیاں کام کر رہی ہیں ایک نے تو اپنا سیٹلائٹ بھی خلا بھیج رکھا ہے اس طرح انڈیا دنیا بھر کو اس میں سرمایہ کاری کی ترغیب دے رہا ہے اس ترغیب میں بنیادی کشش یہ ہے کہ انڈیا کے خلائی پروگرام کی لاگت مغربی ملکوں کے مقابلے میں بہت کم ہے جو اس پروگرام کی مارکیٹنگ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے مستقبل میں اگر چاند پر کان کنی یا سیاحت شروع ہو جائے تو انڈیا اس میں اہم پلیئر ثابت ہو سکتا ہے اس کے علاوہ کئی ملک ایسے ہیں جو خلائی پروگراموں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان کے پاس سرمایہ بھی ہے مگر ٹیکنالوجی نہیں ہے انڈیا انہیں بھی سستی سروسز فراہم کر سکتا ہے اب ذرا نظر دوڑاتے ہیں پاکستان کے خلائی پروگرام کی طرف جو انڈیا سے ایک سال پہلے شروع کیا گیا تھا پاکستان کے خلائی تحقیقاتی ادارے کا نام پاکستان خلائی و بالافضائی تحقیقی ماموریہ یا سپارکو (Pakistan Space & Upper Atmosphere Research Commission) ہے یہ ادارہ ستمبر 1961ء کو قائم کیا گیا اور اس کا ہیڈکوارٹر کراچی میں ہے
اس ادارے کی ابتدا بڑی اچھی اور تیز رفتار تھی ادارے نے ابتدا ہی میں ساؤنڈنگ راکٹ درآمد اور لانچ کرنا شروع کیے اور راکٹ انجنوں کو بنانے کی صلاحیت حاصل کر لی تھی ملک کا پہلا سیٹلائٹ بدر-I سپارکو نے بنایا تھا اور اسے 16 جولائی 1990 کو چین کے زیچانگ سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے لانچ کیا گیا تھا جس نے پاکستانی سائنسدانوں کو ٹیلی میٹری اور دیگر سیٹلائٹ ٹیکنالوجیز میں قابل قدر تجربہ فراہم کیا تھا اس کے بعد سپارکو نے اپنا رخ پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کی طرف موڑ دیا اور میزائلوں کی تیاری میں اہم کردار ادا کرنا شروع کر دیا سپارکو نے حتف I اور حتفII میزائل تیار کرنا شروع کیے تھے ایم 11 میزائل چین سے سیکورٹی ضروریات کے لیے منگوائے گئے اور چین کی مدد سے میزائل بنانے کی فیکٹری بھی بنائی گئی سپارکو کو ھم نے آرڈیننس فیکٹری میں بدل دیا اس کا کام میزائیل نہیں راکٹ بنانا تھا جب ہم اداروں کو جو ان کے کام ہیں وہ نہیں کرنے دیں گے تو یہی کچھ ہو گا آپ کے ادارے تباہ ہوں گے آپ کا ملک ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف جائے گا۔