299

کلرسیداں کے کھلاڑی کھیل کے میدان سے محروم

ثاقب شبیر شانی،پنڈی پوسٹ/

بطور کھلاڑی راقم الحروف کو راولپنڈی ‘ اسلام آباد‘ کہوٹہ‘گوجرخان‘سوہاوہ ‘جہلم‘ ٹیکسلا ‘ واہ‘ روات مندرہ سمیت بہت سے شہروں میں ہارڈ بال کرکٹ کھیلنے کا اتفاق ہوا ہارڈ بال کرکٹ کھیلنے کے لئے خاصے بڑے گراونڈ کی ضرورت ہوتی ہے اور مذکورہ شہروں میں نا صرف گراونڈ میسر ہوتے ہیں بلکہ کئی جگہ تو بیک وقت کئی گراونڈ دستیاب ہیں جن میں بیک وقت کرکٹ کے علاوہ فٹبال اور ہاکی بھی کھیلے جا سکتے ہیں ان میں سرور شہید سٹیڈیم گوجرخان بھی شامل ہے، ان شہروں میں گراونڈز کے تذکرے کا مقصد یہ ہے کہ اچھی ٹیم بہترین کھلاڑی اور سالہا سال کرکٹ کھیلنے کے باوجود ہم کبھی کسی ٹیم کو کلر مدعو کر پائے نہ ہی دیگر شہروں کی طرح ہارڈ بال کرکٹ کے فروغ کے لئے کوئی ٹورنامنٹ کروا پائے کہیں پریکٹس نیٹ بن پایا نہ کوئی کیمپ لگا سکے وجہ اسکی یہ تھی کہ ہمارے پاس سرے سے گراونڈ دستیاب تھا نہ ہے، حتٰی کے سیزن کے بیشتر میچز ڈھوک میجر میں سہیل، ضیاءبھائی اور انکی ٹیم کے باعث کھیل پاتے، تحصیل کلر سیداں کو اللہ تعالیٰ نے کھیل اور کھلاڑیوں کے حوالے سے خصوصی صلاحیتوں سے نوازا ہے،

چونکہ موضوع کرکٹ ہے تو اس حوالے سے جوگی بابر‘ ظفر شاہ ‘کامی‘ ضیائ‘ ناصر جسوال‘ ثاقب رضی ساقی ‘ راجہ طارق‘ راشد رحمٰن‘عدیل‘ثاقب ساقو‘ منور‘ راجہ سہیل خلیل‘ راجہ زین العابدین جیسے ستاروں کا تذکرہ نہ کرنا زیادتی ہوگی ان سمیت تحصیل کلر میں ان گنت کھلاڑی کرکٹ کھیلتے رہے مگر کوئی بھی اس سطح پر کھیل کر علاقے اور ملک کی نمائندگی نہ کر سکا جسکے یہ حقدار تھے ان صلاحیتوں کی وجہ سے جو انہیں اللہ نے عطاءکیں‘ اسکی سب سے بڑی وجہ کلر سیداں میں باقاعدہ کرکٹ گراونڈ کی عدم دستابی ہے جہاں گراونڈز موجود ہیں وہاں سینئر کھلاڑیوں کی کوچنگ میں اکیڈمیز بنتی ہیں بچے کھیل کی مہارتوں کو سیکھتے ہیں گراونڈ میں میچز ہوتے ہیں ٹورنامنٹ ہوتے ہیں علاقائی و قومی نامور کھلاڑی ان میں حصہ لیتے ہیں نوجوان انہیں دیکھ کر اس کھیل کی جانب راغب ہوتے ہیں مقابلے کا رجحان ہوتا ہے مثبت بحث ہوتی ہے رہنمائی ملتی ہے خداد ادصلاحیتوں کے مالک کھلاڑیوں کی پشت بانی کی جاتی ہے

تب جا کر شعیب اختر اور محمد عامر جیسے درخشاں ستارے ان علاقوں سے نکل کر بین الاقوامی افق پر جگماتے ہیں مگر بنیاد نہ ہوتو عمارت کھڑی نہیں ہو سکتی خواب تو
دیکھے جا سکتے انہیں شرمندہ تعبیر نہیں کیا جا سکتا، خداداد صلاحیتوں کے مالک بہت سے کھلاڑی دستک دیتے دیتے تھک گئے مگر ان پر ڈومیسٹک کرکٹ کا دروازہ تک نہ کھل پایا وجہ یہ کہ ان کا کوئی پشت بان تھا نہ یہ کسی کرکٹ کے اکھاڑے کے پہلوان تھے کیونکہ اکھاڑا تھا نہ ہے خود رو پودوں کی طرح سخت سرد موسموں کی مار کھاتے یہ خود سر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر جہاں تک پہنچ پائے پہنچے مگر اس سے آگے کیونکر جاتے کون تھا جو انکی پشت بانی کرتا انہیں کہتا پیچھے مڑ کر مت دیکھنا تمھاری منزل بہت آگے ہے۔سیاست بین الاقوامی کی سطح کی ہو یا بلدیاتی سیاست اور وعدے لازم وملزم ہیں یہی سب. ہے کہ عام وعدوں سے تفریق کے لئے ہیں انہیں سیاسی وعدے کہا جاتا ہے ایسے وعدوں کی پاسداری کئے جانے کی توقع معمولات زندگی میں کئے جانے والوں کی نسبت نہیں رکھنی چاھئیے اور وعدہ وفا نہ ہونے پر وعدہ شکنی کی تہمت باندھنا تو ہرگز جائز نہ ہو گاہاں انہیں جوش خطابت کہا جا سکتا ہے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ سیاسی وعدہ وفاءہوتا ہی نہیں ہے بلکہ ان وعدوں میں بے شمار وفاءہوتے ہیں

مگر سیاسی موسموں کے اعتبار سے اسقدر وعدے ہوتے ہیں کہ بے شمار پورے ہونے کے باوجود بے حساب ادھورے رہ جاتے ہیں۔ایک عرصہ سے ہر فورم پر کلرسیداں میں کھلاڑیوں کےلئے گراونڈ مہیا کرنے کے لئے کہیں آواز تو کہیں قلم اٹھاتا آرہا ہوں بہت عرصے سے گراونڈ بننے کی نوید سنتا آرہا ہوں بہت بار وعدے ہوئے جو وفاءنہ ہوئے۔ پھر نئے وعدوں کا موسم آیا ایک بار پھر وعدے ہوئے پھر ان کی تائید اور تائید در تائید کا سلسلہ چل نکلا ہے، جن پر من وعن یقین کرنے کو جی چاہتا ہے بھلے وفاء ہوں یا نہ ہوں ، بقول شاعر دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے، لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے، میں لکھ کر دیتا ہوں اس شخص کے ہاتھ چوموں گا جس کے دست مبارک سے کلر سیداں میں کرکٹ گراونڈ کی تختی کی نقاب کشائی ہو گی۔
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں