370

راستہ/ثاقب شبیر شانی

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں
اسلام ایک مکمل دین ہے قرآن سرچشمہء ہدایت اور سنت رسول (ص) عملی ضابطہء حیات اسلام ہمیں زندگی کے تمام مسائل کے حل کا راستہ دکھاتاہے تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ راستے کے حقوق و واجبات سے متعلق واضح ہدایات نہ ہوں یہ الگ بات کہ ہم اپنی ناقص عقل کے باعث ان سے صرف نظر برتیں۔ راستوں کے حقوق غصب کرنے والوں کو باور ہو کہ یہ دینی و دنیاوی قوانین کی نفی اور باعث ایزاء ناپسندیدہ جنت و جہنم کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے والا عمل ہے۔

علماء نے متعدد مضامین میں راستوں کے واجبات کے حوالے سے قرآن و سنت اور احادیث کی عرق ریزی کی ہے مسلم‘بخاری‘ترمذی‘ ابوداؤد کی کتب میں احادیث درج ہیں جن کے مکمل حوالاجات تحریر کے اختصار کے باعث ممکن نہیں مگر کچھ احادیث کا مفہوم درج ذیل ہے ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایمان کے بہت سے شعبے ہیں ان میں پہلا کلمہ یعنی لا الہ الا اللہ اورآخری راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔

انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے اور راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹانا بھی صدقہ ہے۔راستہ سے تکلیف دہ وناپسندیدہ چیزوں کا ہٹانا کوئی عام سا صدقہ نہیں بلکہ یہ اتنا بڑا عمل خیر ہے جو انسان کی مغفرت کے لیے کافی بھی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ایک شخص صرف اس بنیاد پر جنت میں چلا گیا کہ اس نے راستہ میں موجود درخت کو کاٹ کر ہٹا دیا تھا جس سے لوگوں کو دشواری ہوتی تھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص نے کوئی اچھا کام نہیں کیا سوائے اس کے کہ کانٹوں بھری ٹہنی کو ہٹایا جو راستے پر تھی تو اس عمل نے اسے جنت میں داخل کر دیا۔ علاوہ ازیں راستوں میں بیٹھنے سے بھی منع فرمایااور بیٹھنا ہی پڑے تو پھر اسکے واجبات بتائے گئے راستوں کو تنگ کرنے پر تو قبول جہاد نہ ہونے سے متعلق بھی حدیث موجود ہے۔ اگر راستے سے ایسی چیزوں کا ہٹانا جو راہگیروں کے لئے باعث ایزا ہوں جنت میں لے جانے والا عمل ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ راستوں میں رکاوٹ ڈالنا راستوں پر تجاوز کرنا راستوں کے حقوق غصب کرنا اور راہگیروں کو ایزا میں مبتلاء کرنا دنیا و آخرت میں قابل گرفت عمل نہ ہو۔

دنیاوی قوانین کی بات کریں تو آئین پاکستان اپنے شہریوں کو آئینی و قانونی حق اور تحفظ دیتا ہے کہ اسے ذہنی و جسمانی ایزا رسانی نہ ہو اس حوالے سے پبلک نیو سینس (عوامی پریشانی) سے متعلق واضح قوانین موجود ہیں جن کے مطابق عوامی پریشانی اور جسمانی نقصان کا باعث بن سکنے والی تجاوزات املاک راستوں فٹ پاتھوں پر پڑی رکاوٹوں کو ہر قانونی طریقے سے ہٹائے جانے کی ہدایات ہیں

حتی کے نقصان پہنچا سکنے والے جانوروں کی تلفی کی ہدایات ہیں (CHAPTER X PUBLIC NUISANCES 133)اور ان قوانین کے تحت بہت سے عدالتی فیصلوں کی مثالیں موجود ہیں بحرحال وطن عزیز کے ہر شہر میں تجاوزات کی بھر ہیں جو شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں اور اس کی جڑیں اسقدر پھیل جاتی ہیں کہ اسے عرف عام میں تجاوزات مافیاء کا نام دیا جاتا ہے

انسانی ہمدردی کے ناطے اکثر انتظامیہ اور شہری اس پر صرف نظر برتتے ہیں مگر بیماری جب بڑھتی ہے تو پھیلنے لگتی ہے اور تشخیص کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جراحی کی ضرورت ہے تاکہ زہر آلود اعضاء منقطع کر کے جان بچائی جا سکے۔ دین و دنیا کے قوانین و ہدایات کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ راستوں کے حقوق ادا کرنا بھی واجبات میں شامل ہے اور عوامی پریشانی کو دور کرنے کے قوانین کا اطلاق بھی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں