191

اپوزیشن کا اتحاداور ملک گیر جلسے


ثاقب شبیر شانی /اپوزیشن جماعتوں کے پی ڈی ایم اتحاد کے ملک گیر جلسے جاری ہیں جن پر تنقید کرتے ہوئے حکومتی ذمہ داران کہتے ہیں کورونا کے باعث موجودہ صورتحال میں جلسے جلوس نہیں ہونے چاھئیں گو کہ اس دوران حکومت بھی جلسے کرتی رہی ہے اور اگر جلسوں سے ہی حکومت گرائی جاسکتی تو اسوقت ایسا ہوتاجب پی ٹی آئی نے تاریخی جلسے کئیحالات حاضرہ کو دیکھیں تو پردہء خیال پر ماضی کے کچھ مناظر بھی ابھرنے لگتے ہیں جب پی ٹی آئی بطور اپوزیشن جماعت مزاحمت کے موڈ میں تھی جلسے جلوس کر رہی تھی اور مارچ کا رخ اسلام آباد کی جانب تھا, اس وقت کے وزیر داخلہ چوھدری نثار علی خان بار بار کہتے تھے کہ اپوزیشن جتھوں کی سیاست کی روایت نہ ڈالے اگر یہ روایت چل نکلی تو پھر کسی بھی حکومت کے لئے کاروبار ریاست چلانا آسان نہیں ہو گا بڑی تعداد میں لوگ تو کوئی بھی سیاسی جماعت لا سکتی ہییا کوئی بھی مذہبی گروہ اتنا مجمع اکٹھا کر سکتاہے مگر اسکا یہ مطلب تو نہیں کوئی بھی جتھہ لے کر آئے اور حکومت کو چلتا کر دے اُس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور انکے وزراء اور ترجمان سارا سارا دن اپوزیشن کے جلسوں ریلیوں دھرنوں کے خلاف اسی طرح کے دلائل پیش کرتے تھے جنہیں اپوزیشن خاطر میں نہ لاتی تھی, اب صورتحال اس کے بر عکس ہے پی ڈی ایم اتحاد سڑکوں پر ہے اور پی ٹی آئی کے وزراء ترجمان وہی باتیں کرتے ہیں جو ماضی کی حکمران جماعت کرتی تھی لیکن ماضی کی اپوزیشن تحریک اور حالیہ تحریک میں ایک واضح فرق کورونا ہے, کورونا جس کے افریت نے دنیا کو دہلا کر رکھ دیا فی الحال دنیا اس کے چنگل سے آزاد نہیں ہو پائی ہے, دنیا میں اس کی تباہ کاریاں جاری ہیں خدا کے فضل و کرم سے پاکستان میں اس کا وہ بھیانک روپ سامنے نہیں جسے دیکھ کر دنیا کے دیگر ممالک سکتے میں ہیں, ایسی صورتحال میں کہ جب کورونا کی دوسری اور پہلے سے زیادہ شدید لہر جاری ہے محض سیاسی مفادات کے لئے بائیس کروڑ عوام کی زندگیوں کو داو پر نہیں لگایا جا سکتا بلخصوص اگر اس کے نتیجے میں انسانیت کش وائرس کا وہ روپ سامنے آتا ہے جو سپر پاور امریکہ, ابھرتی اکنامک سپر پاور چین یا ترقیافتہ یورپ نے دیکھا تو پاکستان ہرگز اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ حکومت تو جلسوں دھرنوں کی صورت میں ماضی میں قائم کی گئی اپنی مثالوں کی تمثیل دیکھ رہی ہے مگر اپوزیشن کیپوری قوم کی زندگیوں کو سیاسی داو پر لگانے کی روایت کو بھی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ماضی میں چوھدری نثار نے جن حالات کی پیش گوئی کی تھی آج وہ حقیقت کا روپ دھارے ماضی کی اپوزیشن اور آج کی حکومت کے سامنے کھڑے ہیں اپوزیشن ہو ملازمین ہوں یاعوام مطلوبہ نتائج کے حصول لئے احتجاج کا راستہ ہی انہیں پہلا اور آخری راستہ نظر آنے لگا ہے۔ کوروناکا پھیلاو بڑھتا جا رہاہے پہلے کی با نسبت رینڈم سیمپلنگ میں پوزیٹو کیسز کا تناسب بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے اور شرح اموت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے حکومت کی احتیاطی پالیسی کا اطلاق گلی بازاروں میں برائے نام نظر آتا ہے یہ بات درست ہے کہ عوام کی نازک معیشت کرفیو جیسی صورتحال کی متحمل نہیں ہو سکتی مگر اسی طرح کے ہجوم جنہیں ماضی کی حکومت معیشت پرخود کش حملہ قرار دیتی تھی اور جو آج معیشت کے ساتھ انسانی زندگیوں کے لئے بھی خطرہ ہیں کی فی زمانہ گنجائش نہیں, دنیا کے مختلف ممالک سے کورونا وائرس کے سدباب کے لئے مختلف دواء ساز کمپنیوں کی جانب سے ویکسین کی جلد دستیابی کے حوالے سے حوصلہ افزاء خبریں سامنے آرہی ہیں حکومت پاکستان بھی دستیابی کی صورت میں جلد از جلد ویکسین کے حصول کے لئے اقدامات لئے ہیں, انسداد کوروناویکسین کے ذریعے قوم کو کوروناسے محفوظ ہو لینے تک جسقدر احتیاط کی جا سکتی ہے ہر صورت کی جانی چاھئیے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں