275

کلرسیداں کی درسگاہیں مسائل کا شکار

ثاقب شبیر شانی/خدائے بزرگ و برتر نے جب حضرت محمدؐپر پہلی وحی نازل کی تو اس کا اولین لفظ تھا اقراء یعنی پڑھئیے اس بات سے واضح ہو جاتا ہے کہ تعلیم کی کس قدر اہمیت اور قدر منزلت ہے کوئی بھی قوم اسوقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اسے زیور تعلیم سے آراستہ نہ کیا جائے اعلیٰ تعلیم یافتہ معاشرہ ہی بہترین صفات کی حامل مہذب قوم پیدا کر سکتا ہے جو ملک وملت کی ترقی میں فعال کردار ادا کر سکے کلرسیداں میں طلباء و طالبات کی تعلیم و تربیت کے لئے بہت سے سرکاری پرائمری ایلیمنٹری ہائی سکولز موجود ہیں

جہاں سائنس و آرٹس کی تعلیم دی جاتی ہے ان تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء و طالبات کو انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کی سطح پر زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج اور گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج ہی امتیازی سرکاری درسگاہیں ہیں مگر شو مئی قسمت ان درسگاہوں کی زبوں حالی اس بات سے عیاں ہوتی ہے کہ 80اسی کی دہائی میں معرض وجود میں آنے والی ان درسگاہوں کے مدرس قریباًچار دہائیاں گزر جانے کے باوجود تعینات نہیں ہو سکے‘بوائز ڈگری کالج میں لیکچرار اسسٹنٹ پروفیسر ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر کی کل اٹھائیس اسامیاں ہیں جن میں سے سولہ اسامیاں خالی ہیں اور بارہ اساتذہ کالج میں تعلیم و تدریس کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں

میڈیکل‘کامرس‘آئی ٹی کے مضامین پڑھنے کا طلباء کو موقع اس لئے فراہم ہی نہیں کیا جاتا کہ ان مضامین کو پڑھانے والا کوئی نہیں جن بارہ مضامین کے اساتذہ دستیاب ہیں انہی پر اکتفا کیا جا سکتا ہے سو یہ طے ہے کہ یہاں سے پڑھ کر کوئی ڈاکٹر یاسافٹ وئیر انجینئر بننے والا نہیں دیگر مسائل پر سر نہ بھی پیٹا جائے تو یہی المیہ سینہ کوبی کے لئے کافی ہے کہ دہائیوں سے قائم اس درسگاہ کو مثالی تعلیمی ادارہ بنانے کی جانب کبھی توجہ کیوں نہیں دی گئی اور حالات حاضرہ آئنہ دار ہیں کہ یہی روش جاری ہے شاید سرکاری کالج سیاست دانوں اشرافیہ اور امراء کی ترجیحات میں شامل نہیں اور شاید اس لئے نہیں کہ آجکل امراء اور متوسط طبقات میں سرکاری اداروں سے بچوں کا تعلیم دلوانے کا فیشن نہیں بحرحال غریبوں کے لئے اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں سو گلی نالی کے ساتھ انکے مستقبل کا راستہ بھی پختہ کرنے کی کوئی سبیل کر دی جائے۔اگر خوبصورت عمارتیں کامیابی کااستعارہ ہوتیں تو تاج محل مقبرہ نہ ہوتا۔ دوسری جانب گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کے حالات اس سے بھی زیادہ ابتر ہیں

ابتداء میں یہ کالج انٹر میڈیٹ تک تھا بعد ازاں اسے ڈگری کالج کا درجہ تو دے دیا گیا مگر ڈگری کالج کے لئے درکار سٹاف بڑھانے کی منظوری نہ دی گئی یعنی انٹرمیڈیٹ کالج پر ڈگری کلاسز کا بوجھ بھی لادھ دیا گیا سو انٹرمیڈیٹ کالج کے لئے منظورشدہ سترہ اساتذہ پر مبنی سٹاف سے ہی برسوں سے کام لیا جا رہا ہے مرے پے سو دُرے کے مصداق منظور شدہ سترہ اسامیوں میں سے بھی صرف آٹھ اسامیوں پر ہی لیکچراراور اسسٹنٹ پروفیسر فرائض منصبی انجام دے رہی ہیں ایسی صورت میں مخصوص مضامین پڑھائے جانا ماورائے عقل نہیں اور یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں کہ اس درسگاہ سے فارغ التحصیل ہو کر کوئی طالباء ڈاکٹر انجینئر بننے والی نہیں کیونکہ انکا یہ حق اسی وقت سلب کر لیا جاتا ہے جب وہ اس درسگاہ میں داخلہ لیتی ہیں باتوں سے انقلاب برپاء کرنا الگ بات حقائق یہی ہیں اور تلخ ہیں کسی نے کبھی توجہ ہی نہ دی کہ کیوں گرلز کالج کا سٹاف تعینات نہیں کیا جاتا کیوں سائنس انجنئیرنگ کامرس آئی ٹی آرٹس کے تمام مضامین ہمارے طلباء و طلبات کو ان سرکاری کالجوں میں نہیں پڑھائے جاتے

جس مقصد کے لئے ہماری پچھلی نسلوں نے ان درسگاہوں کے قیام کے لئے جوتیاں گھسائی تھیں‘اگر اسی علاقے میں نجی سیکٹر میں ایسے مسائل نہیں تو سرکاری اداروں کہ ترقی میں کیا امر مانع ہے کیوں ان مسائل کو دور نہیں کیا جاتا دہائیوں سے منظور شدہ سٹاف تعینات کیا جائے اگر اس کی راہ میں ایسے قواعد و ضوابط شامل ہیں تو جو قابل عمل نہیں تو ان پر نظر ثانی کی جائے بڑے بڑے گریڈز کے بجائے بنیادی قابلیت کے اساتذہ ہی تعینات کر دئے جائیں ایڈہاک یا کنٹریکٹ کی بنیاد پر تعیناتی مستقل حل نہیں بلکہ مستقل مسلہء ہے جس کا بین ثبوت یہی ہے کہ ہر دو درسگاہوں میں صوبہ بھر کی طرح اس سال تا حال کوئی مدرس مقرر نہیں کیا گیا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں