201

چوہدری نثار کا دو حلقوں سے الیکشن لڑنے کا اعلان

سابق وفاقی وزیر چوہدری نثار علی خان نے باقاعدہ طور پر اپنی سیاسی پالیسی کا اعلان کر دیا ہے یہ اعلان انھوں نے مورگاہ میں اپنے کارکنوں کے ایک اجتماع میں کیا

جہاں انھوں نے کہاکہ وہ حلقہ این اے59 اور حلقہ پی پی10سے خود الیکشن لڑیں گے اس کے علاوہ دیگر دو صوبائی حلقوں سے اپنے امیدوار کھڑے کریں گے چوہدری نثار علی خان گذشتہ الیکشن ہارنے کے

بعد گوشہ نشینی کی زندگی گذار رہے تھے ان کے دوبارہ سیاست میں متحرک ہونے کے اعلان سے ان حلقوں اور ان کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہو گے ہم آج کے تجزئیے میں اس کا جائزہ لیں گے

اس میں اگر ہم چوہدری نثار علی خان کی سابقہ سیاسی زندگی پر نگاہ ڈالیں تو یہ گوشہ نشینی پہلی بار نہیں تھی اس سے پہلے وہ الیکشن جیتنے پر بھی حلقہ سے رجوع چھوڑ جاتے

اور جب الیکشن قریب آتے تو تھو ڑا ہی عرصہ پہلے کوئی جلسہ کر کے ترقیاتی کاموں کا اعلان کرتے اور پھر اسی بنا پر ووٹ حاصل کرتے تھے جلسوں میں اکیلے

ہی تقریر کرتے اور عام محفل میں بھی کسی کو گلہ شکوہ کی اجازت و موقع نہ دیتے اس طرح کئی لوگوں کی شکایتیں دل میں ہی رہ جاتیں اور وہ پھر سے چپ چاپ چوہدری صاحب کے حق میں ووٹ ڈال دیتے

حالیہ دور میں پی ٹی آئی کے قائد عمران خان کی بیداری مہم کا اثر چوہدری نثارعلی خان کے حلقہ پر بھی پڑا شکایت کا موقع نہ دینے پر بیزار نوجوان برادری کے نام پر ووٹ دینے سے باغی ہو گئے اور تیس سال تک دلوں میں پروان چڑھنے والی نفرت نے لوگوں کو چوہدری نثار علی خان کے خلاف اکٹھا کر دیا

اسی یک جہتی نے چوہدری نثار علی خان کا حلقہ کی سیاست پر تیس سالہ قبضہ ختم کروا دیادو قومی اور دو صوبائی نشستوں پر الیکشن لڑنے والے چوہدری نثار علی خان صرف ایک صوبائی اسمبلی کی نشست حاصل کر سکے

وہ بھی اگر پی ٹی آئی سے وابستہ مختلف لوگ میدان میں نہ آتے تو شاید یہ سیٹ بھی چوہدری نثار علی خان کے ہاتھوں سے نکل چکی تھی چوہدری نثار علی خان اپنے روایتی ناراضگی کے

انداز پر عمل کرتے ہوئے عوام سے دور ہو گئے اور صوبائی اسمبلی کا حلف اٹھانا توہین قرار دے دیا پھر جب اسمبلی کی جانب سے حلف اٹھانے کے متعلق قانون بنا تو سیٹ بچانے کیلئے چپکے سے

جا کر حلف اٹھا لیا لیکن اس کے بعد بھی صوبائی اسمبلی میں حلقہ کے عوام کا حق نمائندگی ادا نہیں کیا چونکہ انسان کو غصے میں ہوش نہیں رہتا اس لئے جب چوہدری صاحب اس مدہوشی سے

باہر آئے تو انھوں نے سیاست میں کردار ادا کرنے کا اعلان کیا لوگوں کو بلوایا اور حسبِ سابق اکیلی کرسی پر ہی بیٹھے،

لیکن سامنے صرف چند لوگ ہی تھے باقی مسلم لیگ ن کے

نظریاتی لوگ قمرالاسلام کا ہاتھ پکڑ کر اپنے مقام پر کھڑے ہو گئے دیگر

لوگوں نے بھی اپنے اپنے خیالات کے مطابق راہ بدل لی چوہدر ی صاحب نے

بے عزتی خیال کرتے ہوئے خود سامنے آنا گوارا نہ کیا ور اپنے بیٹے چوہدری تیمور علی خان کو میدا ن میں اتارا جنہوں نے شکوہ کرنے والے لوگوں سے وعدہ کیا کہ وہ عوام اور چوہدری صاحب

کے درمیان پل کا کردار ادا کریں گے لیکن چو ہدری صاحب کے پہلے والے پلوں سے تنگ لوگوں نے ان کے بیٹے کو بھی کوئی مثبت جواب نہ دیا اس کے بعد چوہدری صاحب نے لوگوں سے رابطہ کیلئے

اپنے ایک اور رشتہ دار ملک آصف صاحب کو عوامی رابطہ کی ذمہ داری سونپی لیکن وہ بھی پہلے متعارف نہ ہونے کی وجہ سے جگہ نہ بنا پائے اب چوہدری صاحب کو اپنی نسلوں کی

سیاست بھی ختم ہوتی نظر آ رہی ہے اس لئے انھوں نے اعلان کیا کہ وہ اب خود الیکشن لڑیں گے اور ان کی تیاری1985ء کے الیکشن کی طرح ہو گی چوہدری صاحب نے1985ء کی طرز پر کام شروع کر دیا

اور ہر گاؤں میں اپنی بنیاد بنانے کیلئے ساتھیوں کو متحرک کیا لیکن اس عمل میں جہاں بھی کوشش کی گئی تو پرانے پگ پگڑی کے نام پر وٹ دینے والے لوگ کم ہی ملے وہی ساتھ نظر آ رہے ہیں

جن کیلئے الگ ہونا مشکل ہے لیکن ایسے لوگ تعداد میں کم ہیں علاوہ ازیں چوہدر ی نثار علی خان نے1985ء میں جب ہر گاؤں اور وارڈ میں اپنی ٹیمیں بنائیں پھر ان لوگوں پر اپنی گرفت بھی بنائی

اب ان میں سے اکثر اپنی عمریں گذار کر دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں باقی ماندہ لوگ آپس میں بٹے ہوئے ہیں نئے زمانے کے لوگ چوہدری نثار صاحب کے انداز سیاست کو پسند نہیں کرتے

اب مورگاہ کے مقام پر چوہدری صاحب نے عوامی اکٹھ میں جب اپنی سیاسی حکمت عملی کا اعلان کیا تو ان کی جانب سے پیش کئے گئے نقاط بھی ان کیلئے سیاست میں شکست کا سامان بن رہے تھے

پہلی دفعہ چوہدری صاحب نے اپنی اکیلی کرسی کے ساتھ جس دوسرے شخص کو کاندھے کے ساتھ رکھاوہ ان کے بیٹے چوہدری تیمور علی خان تھے جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ عوام کو آئندہ کے نمائندے سے متعارف کروانا چاہتے ہیں چوہدری صاحب کے کاموں کے حوالے سے ان کے مخالفین ہمیشہ یہ کہتے ہیں

کہ چوہدری صاحب ہمیشہ بلدیاتی لیول کے کام کرتے ہیں اور انھیں ہی عوام کے سامنے گنتے ہیں انھوں نے یہی کیا کہ مورگاہ والوں کے سامنے ان کیلئے واٹر سپلائی سکیم کو سب سے

بڑا کام کہا جوبلاشبہ ان کے مخالفین کے بلدیاتی لیول کے کام کے دعوے کو سچ ثابت کر رہا تھا چوہدری صاحب نے حلقہ این اے59اور پی پی10سے خود الیکشن لڑنے کا بھی اعلان

کیا قومی سطح پر مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے امیدواروں سے مقابلہ کرنا تو پہلے ہی چوہدری صاحب کیلئے مشکل ہے کیونکہ ان لوگوں کے ساتھ نظریاتی ووٹر زیادہ ہے

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ چوہدری صاحب نے لوگوں سے یہ نہیں کہا کہ میں اپنی پچھلی غلطیوں کو نہیں دہراؤں گا بلکہ خود کو پاک صاف ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی

سابقہ خدمت کا صلہ لینے آؤں گا یہاں اگرووٹر اپنے منتخب نمائندوں کی خدمت کا تقابلی جائزہ لینا شروع کرے تو سیمنٹ اور تارکول سے بنے ہوئے ترقیاتی کام شاید چوہدری نثار علی خان صاحب

کے حصے میں آئیں لیکن صحت اور تعلیم کے کاموں میں پی ٹی آئی کے غلام سرور خان اور مسلم لیگ ن کے قمرالاسلام راجہ سبقت لے جائیں گے اب آتے ہیں چوہدری صاحب کے سوال و جواب کے رویے

کی طرف اس معاملہ میں بھی چوہدری صاحب کا رویہ پہلے والا ہی تھا انھوں نے میڈیا کی نظر سے بچنے کیلئے کیمرے بند کروا دئیے لیکن پھر بھی آج کے جدید دور میں کون کیمرے سے بچ سکتا ہے

حالانکہ سیاست دان تو عوامی ہوتا ہے وہ میدا ن میں کھلی بات کرتا ہے اور چوہدری صاحب ویسے بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کھری باتیں کرتے ہیں تو کھری بات والے کو بغیر کیمرہ بات کرنے

کی ضرورت ہی نہیں ہوتی لیکن اس کام میں بھی چوہدری صاحب چہرہ چھپانے والے ہی ثابت ہوئے اب آتی ہے بات پارٹی شمولیت کی اس پر دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن اور چوہدری نثار صاحب کے

درمیان پیدا ہونے والے فاصلے اتنے ہو چکے ہیں کہ واپسی کی راہ ممکن نہیں دوسرا آپشن پی ٹی آئی کا ہے اگر چوہدری صاحب پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو ان سے تنگ آ کر پی ٹی آئی

میں شامل ہونے والا ووٹربھی انہیں ووٹ نہیں دے گا بلکہ پی ٹی آئی سے مخالفت رکھنے والے ان کے اپنے ووٹرز بھی مسلم لیگ ن میں چلے جائیں گے اور ان کا ووٹ مزید کم ہو گا دوسرا پی ٹی آئی میں پہلے

سے موجود ان کے مخالف لوگ انھیں روز شرمندہ کیا کریں گے اس کے بعد آخری آپشن جیپ سے ڈرانے کا آتا ہے جو پچھلی دفعہ ناکام ہوا اس دفعہ تو ویسے ہی لوگوں اور جیپ کے درمیان فاصلے ہیں

لہٰذا ایسی کوئی راہ نظر نہیں آتی جس سے یہ توقع کی جا سکے کہ چوہدری نثار علی خان وہی چوہدری نثار علی خان ہوں گے جن کی شکست کو ناممکن سمجھا جاتا تھا بلکہ اس دفعہ تو خیال کیا جا رہا ہے

کہ ان کا نمبر تیسر ااور وہ بھی کافی نچلے درجے کا ہو سکتا ہے شاید کسی کو ہمارے اس تجزئیے سے اتفاق نہ ہو لیکن حالات کی پرکھ یہی بتا رہی ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں