136

پاکستان میں لاپتہ افراد اور پیچیدہ حقائق

تحریر :رخشندہ چوہدری
پاکستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک گہرا اور پیچیدہ معاملہ ہے جو برسوں سے ایک چیلنج کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔ اس مسئلے سے متعدد بے بنیاد افسانے جڑے ہوئے ہیں، جن کا اصل حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان غلط فہمیوں میں یہ عقائد بھی شامل ہیں کہ تمام لاپتہ افراد کو سیکیورٹی فورسز یا انٹیلی جنس ایجنسیوں نے گرفتار کیا ہے، کہ یہ قوتیں قانون سے بالاتر ہو کر کام کرتی ہیں اور کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں، مزید یہ کہ لاپتہ افراد کے حقوق کو مستقل طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ یہ خرافات پاکستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے کی حقیقی نوعیت کو مسخ کر رہی ہیں


لاپتہ افراد ایک عالمی رجحان ہے اور متعدد وجوہات پاکستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اکثر صرف سیکورٹی فورسز پر توجہ مرکوز کرتی ہیں لیکن آسانی سے اصل عوامل/زمینی حقائق کو سراسر نظر انداز کر دیتی ہیں۔ رضاکارانہ طور پر گمشدگی کو جبری گمشدگی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس میں کئی ایسے معاملات پائے گئے ہیں جہاں افراد اپنی مرضی سے، اپنے اہل خانہ کو بتائے بغیر روپوش ہو گئے ۔ مزید برآں، تحقیقات کے دوران، بہت سے ایسے معاملات سامنے آئے جہاں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی گرفتاری سے بچنے کے لیے افراد اپنی مرضی سے غائب ہو گئے۔ ایک اور بڑا مسئلہ لاوارث نعشوں کی شناخت میں درپیش مشکلات ہیں۔

ایدھی اور چھیپا کے محتاط اعداد و شمار کے مطابق 2005 سے لے کر اب تک ملک بھر میں صرف ان دو این جی اوز کے ذریعے 35,000 سے زیادہ لاوارث نعشوں کو دفن کیا جا چکا ہےاگر دوسرے ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہے کہ لاپتہ افراد ایک اہم مسئلہ ہے جو عالمی سطح پر ممالک کو متاثر کرتا ہے ، بشمول امریکہ ، برطانیہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک – قابل اعتماد ذرائع کی بنیاد پر مختلف ممالک سے لاپتہ افراد کی رپورٹوں کا موازنہ اس مسئلے کو اجاگر کرتا ہے ۔


امریکہ میں ، نیشنل کرائم انفارمیشن سینٹر (این سی آئی سی) نے ایف بی آئی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی اپنی 2021 کی رپورٹ میں 521 ، 705 کیس رپورٹ کیے۔ برطانیہ کے لاپتہ افراد یونٹ (ایم پی یو) کی 2020/21 کی ڈیٹا رپورٹ میں 241,064 کیسوں کی دستاویز کی گئی ۔ جرمنی میں 2018 کی ایک نیوز رپورٹ میں 11,000 لاپتہ افراد کا حوالہ دیا گیا ۔ ہندوستان میں 2018 میں کیسوں کی تعداد 347,524 تک پہنچ گئی ۔ غیر ارادی گمشدگیوں کے خلاف ایشیائی فیڈریشن (اے ایف اے ڈی) نے رپورٹ دی ہے کہ ہندوستان کے زیر قبضہ جموں و کشمیر (آئی او جے اینڈ کے) میں 1989 سے 2012 تک 8,000 مقدمات تھے ۔ نیپال میں سال 2020/21 میں 10,418 کیس رپورٹ ہوئے ۔ یہ اعداد و شمار لاپتہ افراد کے معاملات کی وسیع نوعیت اور اس مسئلے سے نمٹنے میں ممالک کو درپیش جاری چیلنجوں کی وضاحت کرتے ہیں ۔
اس سلسلے میں پاکستان میں ”لاپتہ افراد” کے معاملے کی ابتدا سوویت – افغان جنگ کے بعد 1990 کی دہائی کے وسط سے ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران، ہماری عدلیہ کے بعض فیصلوں کے نتیجے میں دہشتگردی میں ملوث بہت سے مشتبہ افراد کو رہا کیا ہے، جس کے باعث انہیں پاکستان بھر میں مزید دہشتگردانہ کارروائیاں اور تشدد کرنے کی ہمت ملی ہے۔

پاکستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے کو الگ تھلک نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ پاکستان 2000 کے اوائل سے ہی دہشت گردی کا شکار ہے اور تب سے مسلسل جنگ کی حالت میں ہے لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن ریاست ہونے کے باوجود، پاکستان میں دہشتگردی کے مقدمات میں سزا کی شرح سب سے کم ہے۔ اس مسئلے کا توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ ہمارا قانون دہشتگردی کے مشتبہ افراد کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے….۔؟

پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ہمیشہ بنیادی انسانی حقوق کے آئینی مینڈیٹ کی حمایت اور پاسداری کا عہد کیا ہے اور اس حوالے سے پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے لوگوں اور معاشرے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے بے شمار قربانیاں بھی دی ہیں۔ پھر بھی ان انتھک کوششوں کے باوجود پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بغیر ثبوت کے ہر لاپتہ شخص کی گمشدگی کا الزام دھر دیا جاتا ہے اور اس پراپیگنڈے کو سوشل میڈیا پر ایک سوچی سمجھی مہم کے ذریعے پھیلا کر عوام میں غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں۔

پاکستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے کی اہم وجوہات میں درجہ ذیل بڑے عوامل شامل ہیں۔ ٭ کارروائی میں ہلاک دہشت گرد، وہ افراد جو لڑنے کے لیے بیرون ملک گئے تھے٭ (افغانستان، شام اور عراق) افغانستان یا دوسرے ممالک ہجرت (اب بھی افغانستان کے گولانو کیمپ میں مقیم ہیں) ٭پڑوسی ممالک میں قید افراد۔٭ انسانی اسمگلنگ (یورپ منتقل کرنے کے لیے افراد کا بڑا حصہ پاکستان ایران کی سرحد عبور کرتا ہے) ٭ رضاکارانہ گمشدگیاں (مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد/مفرور افراد/خاندانی جھگڑے/گھریلو مسائل) ذاتی دشمنی۔٭.نامعلوم لاشوں کا مسئلہ سابقہ فاٹا، پاٹا اور بلوچستان میں قبائلی جھڑپیں۔ ٭ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے کالعدم بلوچ عسکریت پسندوں کے ذریعے دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے پاکستانی شہریوں کو بھرتی کرنے میں دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مجرمانہ شمولیت اور بعد میں ان کے اہل خانہ انہیں لاپتہ افراد قرار دیتے ہیں اور طویل غیر حاضری کی وجہ سے لاپتہ ہونے کے واقعات سے عبارت کرتے ہیں۔

یہاں لاپتہ افراد اور جبری گمشدگیوں کے کیسز میں فرق کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لاپتہ افراد ملک میں کسی نہ کسی دہشتگردانہ کارروائی کے دوران سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔ مزید یہ کہ ابھی کچھ عرصہ قبل گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر دہشتگردوں کی جانب سے حملہ کیا گیا اور اس حملے میں دہشتگرد کریم جان ہلاک ہوا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ دہشتگرد کریم جان لاپتہ افراد کی فہرست میں موجود تھا اور بعد میں اس کی بہن نے نعش حاصل کرنے کیلئے باقاعدہ درخواست بھی دی۔اس سے قبل بھی دہشتگرد عبدالودود ساتکزئی کی بہن 12 اگست 2021ء سے بھائی کی گمشدگی کا واویلا مچا رہی تھی جو مچھ حملے میں مارا گیا۔

لاپتہ افراد اور جبری گمشدگیوں کے واقعات حقیقت پر مبنی نہیں جن کی اصل حقیقت دہشتگرد کریم جان، دہشتگرد امتیاز احمد اور دہشتگرد عبدالودود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لاپتہ افراد کیلئے نام نہاد مہم چلانے والی ماہ رنگ بلوچ نے بھی اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ ایران میں پاکستان کے میزائل حملے میں مارے جانے والے افراد کا تعلق صوبہ بلوچستان کے لاپتہ افراد سے ہے۔لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے حکومت پاکستان کی کوششیں جاری ہیں اس ضمن میں وزارت داخلہ کے تحت 2011 میں قائم کیے گئے لاپتہ افراد کے کمیشن کے جانشین کے طور پر کمیشن آف انکوائری (CoIoED) لاپتہ افراد کے مسئلے کو فعال طور پر حل کر رہا ہے۔ مارچ 2024 تک، کمیشن نے کل 10,203 مقدمات درج کیے ہیں، جن میں سے 7,901 کو کامیابی کے ساتھ حل کیا گیا ہے۔ تاہم 2,302 معاملات ابھی تک حل نہیں ہوئے ہیں۔پاکستان میں مبینہ طور پر ”لاپتہ افراد” کے واقعات کی نسبتا کم تعداد کے باوجود، ملکی اور بین الاقوامی قوتوں کی طرف سے پاکستان کو ایک ایسی ریاست کے طور پر نشان زد کرنے کی جان بوجھ کر کوشش کی گئی ہے۔


دہشتگردی کی عفریت کے باعث ضروری ہے کہ عدالتیں اور پارلیمنٹ مل بیٹھ کر دہشتگردی پھیلانے والے پتا افراد کے بھیس میں ان عناصر کے حوالے سے کوئی مشترکہ قانون سازی کریں کیونکہ لاپتہ افراد کے معاملے پر پاکستان پر بین الاقوامی معیارات پر عمل کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس طرح کے معیارات کی پاسداری کے لیے پہلے مناسب قانون سازی اور ضابطہ اخلاق کو قائم کرنے کی ضرورت ہے جو سکیورٹی کی ضرورت اور عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے قومی عزم کے درمیان توازن پیدا کریں۔
مزید یہ کہ پاکستان میں عدم استحکام کو ہوا دینے کے لیے کالعدم بلوچ عسکریت پسندوں کی طرف سے دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے پاکستانی شہریوں کو پرکشش معاوضے پر بھرتی کرنے میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان میں ”لاپتہ افراد” کے واقعات کی نسبتاً کم تعداد کے باوجود، ملکی اور غیر ملکی دشمن قوتوں کی طرف سے کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان کو ایک ایسی ریاست کے طور پر پیش کیا جائے جہاں ”لاپتہ افراد” بہت زیادہ ہیں۔

لاپتہ افراد کے نام پر سیاست کرنے والے عناصر بیرونی قوتوں کی ایماء پر ملک میں بدامنی اور انتشار پھیلا رہے ہیں لیکن اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت، سٹیک ہولڈرز اور اعلیٰ عدالتیں مل بیٹھ کر اس لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے ایسی قانون سازی کریں جس سے یہ مسئلہ جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور ایسے افراد جو لاپتہ افراد کی آڑ میں ملک دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور قانون کے مطابق ان مجرموں کو سزا دلائی جائے


خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں