196

آٹھ گھنٹے

سزائے موت کے مجرموں کو کفن پہنا کرپھانسی گھاٹ کی طرف لایا گیا، محافظوں نے ان کے ٹخنے باندھے، گلے میں پھندے اور سر پہ کپڑے ڈالے، اس سے پہلے کہ جلادکو رسی کاٹنے کا حکم دیا جاتا، مجرموں کی زبان سے یہ تاریخی الفاظ بلند ہوئے “وہ وقت آئے گا جب ہماری خاموشی ان آوازوں سے زیادہ طاقتور ہو گی، جن کا آج آپ گلا گھونٹ رہے ہیں “، اسی اثناء میں جلاد نے اپنی پوری طاقت سے کلہاڑا گھمایا، رسی ٹوٹی اورمجرموں کے پاؤں کے نیچے بنے پھندے کے دروازے کھل گئے اور چاروں مجرم پھانسی کے پھندے پہ جُھول گئے۔


انیسویں صدی کے آخر میں دن میں آٹھ گھنٹے کام کرنے کا نعرہ مزدوروں کی ایک تحریک میں تبدیل ہو چکا تھا، کیونکہ مزدور معمولی معاوضے پہ پورے دن میں دس دس، بارہ بارہ بلکہ سولہ سولہ گھنٹے کام کر کر کے تھک جاتے تھے، لہذااب ان کا مطالبہ تھا کہ ان کی اجرت میں کمی لائے بغیر ان کے کام کرنے کے اوقات میں کمی لائی جائے، سرمایہ داروں، کاروباری افراد اور سیاست دانوں کی مخالفت کے باوجود مزدوروں کی یہ تحریک بہت زور و شور سے جاری رہی، اور بالآخر 4مئی 1886کو امریکہ کی ریاست شکاگو کے ایک شہر الینوائے میں مزدوروں کی تحریک میں ایک ایسے تاریخی واقعے نے جنم لیا، جو رہتی دنیا کے لئے ایک مثال بن گیا، اور اسی دن کی مناسبت سے یکم مئی کو پوری دنیا میں مزدوروں کاعالمی دن منایا جاتا ہے۔


اکتوبر 1884میں مزدور یونین کے زیر اہتمام ایک کنونشن منعقد ہوا، جس میں انہوں نے متفقہ طور پر یکم مئی 1886کووہ تاریخی دن قرار دیا کہ جس دن ان کی “آٹھ گھنٹے کام”کی تحریک کوعملی طور پر نافذ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، جیسے جیسے یہ تاریخ نزدیک آرہی تھی مزدوروں کی یونین نے آٹھ گھنٹے کام کی تحریک کو کامیاب کرنے کے لئے ہڑتال اور جلوسوں کی تیاریاں شروع کر دیں، یکم مئی بروز ہفتہ کو مختلف فیکٹریوں، کارخانوں اور ملوں میں کام کرنے والے ہزاروں مزدور امریکہ کی گلیوں، سڑکوں اورچوراہوں میں نکل آئے، ان کے ہونٹوں پر ایک ہی نعرہ تھا” آٹھ گھنٹے کام۔ آٹھ گھنٹے آرام اور آٹھ گھنٹے جو مرضی کریں ہم کام” ایک اندازے کے مطابق ہڑتال میں شریک مزدوروں کی مجموعی تعداد تقریباً تین لاکھ سے زائد تھی، یہ ہڑتالیں،

مظاہرے مسلسل چار دن جاری رہے، دو دن تو بہت پر امن رہے لیکن تیسرے دن یعنی تین مئی کو مظاہرین اور پولیس کی جھڑپ میں تین مزدوروں کی موت واقع ہو گئی، ان مزدوروں کی موت کے خلاف پرامن احتجاج کے لئے مزدور یونین نے بھوسہ منڈی (Haymarket) میں ایک ریلی کا انعقاد کیا، چار مئی کو شام تقریباً ساڑھے آٹھ بجے جب مزدور لیڈر احتجاجی مظاہرے سے خطاب کر رہے تھے، تو اچانک پولیس کا ایک دستہ مظاہرین کو وہاں سے ہٹانے کے لئے آ گیا، پچھلے دن کا ہوا افسوسناک واقعہ اور موسم کی خرابی کے باعث آج مظاہرین کی تعداد بہت کم تھی، مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں شروع ہو گئیں، جلسے میں بد نظمی پھیل گئی، مزدور ادھر ادھر بھاگنا شروع ہو گئے، کہ اچانک کسی نامعلوم شخص نے وہاں دھماکا کر دیا، اور فائرنگ بھی شروع ہو گئی، جس کے نتیجے میں سات پولیس افسران اور چار مزدور مارے گئے، جبکہ ستر سے زائد لوگ زخمی بھی ہوگئے، سارا مجمع تتر بتر ہو گیا اور وہاں صرف لاشیں اور زخمی ہی رہ گئے


اگلے دن نہ صرف شکاگو میں بلکہ پورے امریکہ میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا، دنیا بھر کی مزدور مخالف حکومتوں نے اس واقع کو بنیاد بنا کر مقامی مزدور یونینوں کو کچلنے کی کوششیں شروع کر دیں، شکاگو میں مزدور رہنماؤں کی پکڑ دکڑ شروع ہو گئی، پولیس بغیر کسی سرچ وارنٹ کے گھروں میں داخل ہو گئی اور مزدور یونین سے منسلک تمام اخبارات کو بھی بند کر دیا گیا، بالآخر مزدور تحریک کے آٹھ سرکردہ رہنماؤں کو اس دھماکے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے گرفتار کر کے ان پر باقاعدہ مقدمہ شروع کر دیا گیا، جس کی سماعت 21جون 1886سے لیکر 11اگست1886تک چلتی رہی، اور بالآخر عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ تمام مزدور رہنما انارکی پھیلانے کی سازش کا حصہ اور ذمہ دار ہیں جس کے نتیجے میں پولیس افسران اور کئی لوگوں کی جان گئی، عدالت نے ساتمزدور رہنماؤں کو سزائے موت اور ایک کو 15سال قید بامشقت کی سزا سنا دی۔ 1887تک کیس کی اپیلیں چلتی رہیں

، اور دو رہنماؤں کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا، 11نومبر1887 کو پانچ مزدور رہنماؤں کو پھانسی دی جانی تھی، پھانسی سے ایک دن قبل ایک مزدور رہنمانے جیل میں اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا، جس کا معمہ آج تک حل نہ ہو سکا کہ اس کے پاس یہ دھماکہ خیز مواد کہاں سے آیا، جبکہ باقی چار مزدور رہنماؤں کو پھانسی دے دی گئی۔ بعد ازاں 1893میں اُس وقت کے گورنر نے باقی زندہ رہ جانے والے تین مزدور رہنماؤں کی سزا ئیں معاف کر دیں۔ اور ان تمام مزدور رہنماؤں سے معافی بھی مانگی جو بے قصور ہوکر بھی پھانسی چڑھ گئے، اس کے علاوہ گورنر نے ان مزدور رہنماؤں کی یاد میں ایک یادگار بھی بنوائی


لوگ سمجھ رہے تھے کی ان مزدور رہنماؤں کی پھانسی سے سب کچھ ختم ہو جائے گا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ ان کی موت تو دراصل ایک آغاز تھا۔ ایک نہ ختم ہونے والی جدوجہد کا آغاز، جو ان کی موت سے شروع ہوئی اور آج تک جاری و ساری ہے، تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے وہ کسی کو معاف نہیں کرتی، اس کیس کا شمار بھی تاریخ کے ان کیسوں میں ہوتا ہے کہ جس میں انصاف کا قتل عام ہوا، ثبوتوں اور شہادتوں کے ناکافی ہونے کے باوجود ان مزدور رہنماؤں کو دھماکہ کرنے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا ذمہ ذار قرار دیا گیا، جس کا مقصد صرف اور صرف مزدوروں کے حقوق کی تحریک کو کچلنا تھا، اس کو کمزور کرنا تھا، لیکن اس کے برعکس اس واقع نے مزدوروں اور محنت کشوں کی تحریکوں اور ان کے حامیوں میں شدید غم و غصے کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں شدید احتجاجی مظاہرے ہوئے، اور مزدوروں کے حقوق کی تحریک کو ایک نئی اور عالمی جہت ملی


اس میں کوئی شک نہیں کہ مساوی حقوق و انصاف، سماجی برابری، بولنے اورتحریک کی آزادی کی وہ جنگ جو مزدوروں نے آج سے 137سال پہلے شروع کی تھی وہ آج بھی جاری و ساری ہے، گو کہ مزدوروں اور کام کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ان کی آواز پھر بھی عدل کے ایوانوں تک نہیں پہنچ پاتی، ان پہ ہونے والے ظلم و استحصال کی کہانیاں ہماری نصاب کی کتابوں میں تو موجود ہیں لیکن عملی طور پر بے جان ہیں، ضرورت اس ا مر کی ہے کے کہ ہم اس حدیث مبارکہ کو عملی طور پر اپنی زندگیوں میں نافذ کریں کہ جس میں فرمایا گیا ہے کہ”مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو”۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں