185

ٹرینڈ تبدیل

حاجی صاحب کا شمار علاقہ کے چند بڑے زمینداروں میں ہوتا ہے ساٹھ کی دہائی میں صدر جنرل ایوب کے دور میں منگلا ڈیم کی تعمیر کا آغاز ہوا تو حاجی صاحب کا گھر اور رقبہ بھی ڈیم کی زد میں آ گیا۔

حکومت نے متاثرین کو پنجاب کے مختلف اضلاع میں زمین الاٹ کی، حاجی صاحب کے والدین کو بھی پنجاب میں ایک اچھی خاصی زرعی زمین الاٹ ہو گئی انکے والد صاحب کو برادری کے چند قریبی رشتہ داروں کے ہمراہ منتقل ہونا پڑ گیا، ضلع میرپور میں اکثریت جٹ خاندان کی ہے اس لیے وہ اپنے نام کیساتھ چودھری لکھنا فخر اور اعزاز تصور کرتے ہیں

۔ جس طرح علاقہ میں ان کا تعلق ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تھا پنجاب میں مستقل طورپر منتقل ہونے کے بعد زمینداری کا سلسلہ شروع کیا تو وہاں بھی میرپوریوں کے ڈیرے کا نام بولنے لگا حاجی صاحب زیادہ پڑھے لکھے تو نہیں لیکن اپنی زمینداری اور معاملات کے بارے میں علم اور حساب کتاب لکھنے کی قابلیت رکھتے ہیں

، وسیع دسترخوان اور رکھ رکھاؤ رکھنے کی وجہ سے اس علاقہ میں بھی کم وقت میں اپنا ایک مقام بنا لیا تھا, انسان ہونے کے ناطے بہت سی خوبیوں کے مالک ہونے کیساتھ ساتھ ان کی ذات میں چند کمزوریاں بھی تھیں ان کی زمینداری کا سارا نظام سنبھالنے کیلئے علاقہ کے غریب لوگ جن کا تعلق ترکھان لوہار نائی کمار اور مصلی خاندانوں سے ہے ان ہی سے مدد حاصل کرتے ہیں

۔ کام کے عوض نقدی دینے کی بجائے سیب دیتے یعنی سال کی زمینداری کے کام کے علاوہ خوشی و غمی کے موقع پرتمام امور کی سرانجام دہی کے بعد کمیوں کو دانے دیتے ہیں ان سے برتاؤ ہمیشہ اچھا اور دھمیے انداز میں ہوتا تاکہ ان سے منسلک تمام لوگ خوش رہیں لیکن بڑی خامی یہ کہ کام کرنے والوں کو ان کے گھر کی کسی چارپائی پر بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی

۔ان کے تصور میں تھا کہ حجامت کرنا مٹی کے برتن بنانا جوتوں کا کھٹنا خوشی و غمی کے موقع پر برتن صاف کرنا نیچ کام ہیں اور ایسے کام کرنیوالے چودھریوں کے برابر نہیں ہو سکتے حاجی صاحب کے دو بیٹے ہیں جو ان کے بہت ہی تابعدار اور خدمت گار باپ کی مدد اور ان کے زمینداری کے معاملات کو دیکھنا اپنی اولین ذمہ داری سمجھتے تھے۔حاجی صاحب نے دونوں بیٹوں کی شادی اپنے قریبی رشتے دار خاندان سے کی، بعدازاں بہتر اور روشن مستقبل کے لیے ان کو برطانیہ میں شفٹ کرنے کے لیے مشغول ہوگئے کچھ عرصہ بعد دونوں بیٹوں کا ویزہ ہو گیا,

چند برس بعد ان کی بہووئیں اور پوتے و پوتیاں بھی ہمیشہ کے لیے برطانیہ منتقل ہوگئے بیٹے گائے بگائے حاجی صاحب سے ملاقات اور گندم کے تھرشینگ کے موسم کے دوران کی مدد کے لیے پاکستان آتے چند ہفتے قیام کے بعد واپس روانہ ہوجاتے حاجی صاحب اب بوڑھے ہوچکے ہیں ان میں اب وہ جوانی والا جوش و جذبہ نہیں لیکن اپنے خدمت گارکمیوں کو وہ ابھی تک بھی گھر کی چار پائی پر بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں

چند ماہ قبل ان سے ملاقات کے لیے جانے کا اتفاق ہوا تو کافی پریشان نظر آئے اس بارے جاننے کی کافی کوشش کی لیکن وہ پریشانی کی وجہ کا اظہار کرنے سے کتراتے رہےان کو فریش اور خوش کرنے کے لیے میں نے میرپور کے آبائی علاقہ کی یاد کروائی باتیں شروع ہوئیں تو ان کے چہرے پر خوشی نمودار ہونے لگی, میں نے کہا کہ حاجی صاحب اگر حکومت منگلا ڈیم کو ختم کرنے کا اعلان کرتی ہے

آپ زمینداری, مربعے اور پھلوں کے باغ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے آبائی علاقہ میں جانا پسند کریں گےیہ سنتے ہی ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے کہنے لگے کیوں نہیں جی ہم سب کچھ بچ کر اپنی دھرتی میں پہنچ جائیں مجھے تو آج بھی اپنی مٹی سے پیار ہے مجھے اپنا بچپنا بہت یاد آتا ہے

چند منٹ کی باتوں کے بعد حاجی صاحب کا موڈ ٹھیک ہوا تو میں نے پریشانی کے بارے میں پھر پوچھ لیا کہنے لگے کہ کیا بتاؤں جی میرے چاروں پوتوں نے انگلینڈ میں نائیوں والا کام شروع کیا ہوا ہے وہ نہ صرف حجامت کرتے ہیں بلکہ نومولود بچوں کے بال اتارنے کے لیے لوگوں کے گھر گھر جاتے ہیں۔

ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ ان کادادا علاقہ کا ایک بڑا زمیندار اور خاندانی چودھری ہے انہوں نے میرا ناک کٹوا دیا ہے ادھر علاقہ کے سب لوگوں کوعلم ہوگیا میں ان کے سامنے منہ نکالنے کے قابل نہیں رہا ہوں میں نے حاجی صاحب کو تسلی دینے کی بہت کوشش کی ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں تمام انسان برابر ہیں کام اور پیشہ اپنانے سے کوئی چھوٹا و بڑا نہیں ہوتارب کائنات کے ہاں پرہیز گار اور متقی ہی افضل ہے

لیکن یہ بات ان کے ذہن میں نہ جگہ بنا پائی وہ اپنی سوچ پہ ہی باضد رہے بات یہی ختم نہیں ہوتی آگے چلتے ہیں, چند ہفتہ قبل عزیز رشتے داروں کو ملنے جانے کا اتفاق ہوا میرے قریبی رشتے دار سے ان کے پڑھے لکھے بیٹے کے بارے میں استفسار کیا کہ ان کی آج کل کیا مصروفیات ہیں ان کے والدصاحب نے بڑے فخریہ انداز میں کہاکہ بیٹے نے کاروبار شروع کیا ہے دکان بنانے میں دو لاکھ روپے سے زائد کا خرچہ آیا یہاں سے فارغ ہوکر آپ کو دکھاتا ہوں میں ساتھ چل دیا تھوڑی دیر بعد مارکیٹ میں داخل ہوئے پہلی دکان کے باہر آویزاں بورڈ پر چودھری گرم حمام اور یہاں پر فیشنی بالوں کی کٹائی شیو نیز دولہا بھی تیار کیا جاتا ہے کا جملہ پڑھ کر ششدر رہ گیا

میرے اشارہ پر کہ یہ کاروبار ہے بھائی نے گردن ہلاتے ہوئے کہا جی جی یہی شروع کیا ہے میرے کزن کے بیٹے انگلینڈ میں ہوتے ہیں انہوں نے بھی وہاں یہ کام شروع کیا ہوا ہے ماہانہ لاکھوں روپے کماتے ہیں وہ خود بھی خوشحال اور یہاں پاکستان میں بھی ان کا خاندان مزے کی زندگی گزار رہا ہے میں نے بات کرنا چاہی لیکن وہ پہلے ہی سمجھ گئے میری بات کو سیکنڈ کرتے ہوئے بولے بھائی جی ٹرینڈ تبدیل ہوگیا ہے

آج کل پیسے کا زمانہ ہے محنت میں عظمت ہے ہنر میں برکت ہے اپنے ہاتھ سے روزی کمانے والا اللہ کا دوست ہے انسان پیشہ سے نیچ نہیں بلکہ کردار سے کمی ہوتا ہے اللہ تعالی نے تمام انسانوں کو برابری کی سطح پر اشرف المخلوقات بنایا ہے ہم کون ہوتے ہیں کسی کو کمی قرار دینے والے سوشل میڈیا کی وجہ سے علم کی روشنی گھر گھر پہنچ چکی ہے ٹرینڈ تبدیل ہوگیا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں