161

سبز پاسپورٹ

باباگودرکم پڑھے لکھے ہونے کے ساتھ ساتھ سادہ طبیعت اور پراثرشخصیت کے مالک تھے۔ جذبہ حب الوطنی علاقائی روایات اور ثقافت سے رغبت ان میں ایسے کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی کہ یورپ کی پرتعیش زندگی کی رنگینیاں بھی اس پر اثر انداز نہ ہوسکیں۔ بابا کی سوچ وفکر اور بات چیت اس وقت ذہن میں گھومنے لگی۔

جب میں پاسپورٹ کی تجدید کے لیے راولپنڈی پاسپورٹ آفس میں صبح سویرے ہی پہنچا تو میرے سے پہلے ٹوکن کے حصول کے لیے ایک لمبی لائن لگی ہوئی تھی ویٹنگ ایریا بھی تقریباً کچھا کھچ بھرچکا تھا ۔

میری طرح ابھی اور بھی لوگ آرہے تھے لیکن سیکورٹی گارڈ دروازہ بند کرتے ہوئے مسلسل اعلان کیے جارہا تھا کہ تین سو ٹوکن مکمل ہوچکے ہیں مزید درخواستیں وصول کرنے کی گنجائش نہیں۔ مزید تکلیف اور زحمت سے بچنے کے لیے کل صبح جلدی تشریف لائیں۔

اعلان سنتے ہی میں مزید وقت ضائع کیے بغیر مری روڈ پر واقع ایگزیکٹو پاسپورٹ آفس کی جانب روانہ ہوگیا وہاں پہنچا تو صورتحال سابقہ نارمل پاسپورٹ دفتر سے کچھ مختلف نہ تھی زائد فیس ہونے کے باوجود درخواست گزاروں کی لمبی لمبی لائنیں تھیں لیکن خوش قسمتی سے ٹوکن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

مزید پروسیس کے لیے باری کے انتظار میں ویٹنگ ایریا میں بیٹھا ارد گرد نظر دوڑائی تو اکثریت نوجوانوں کی ہی نظرآئی۔چند ایک سے گفتگو ہوئی تو نقطہ نظر سامنے آیا کہ بے روزگاری اور حالات سے دلبرداشتہ ہوکر آج کا نوجوان اپنے ملک کو خیر آباد کہنے پر مجبور ہو رہا ہے ۔

نوجوانوں کی سوچ یورپ کا خواب وہاں کی پرتعیش زندگی کے بارے خیالات اپنی جگہ معتبر چونکہ ہر انسان کو اپنے من کی زندگی جینے کا پورا حق حاصل ہے لیکن بابا گودر سے آخری ملاقات انکی دور اندیشی کی باتیں یورپ میں گزاری زندگی کی تیس بہاریں اور پھر ہمیشہ کے لیے وطن واپسی کا فیصلہ میرے ذہن میں عجیب الجھن پیدا کیے جارہا تھا مجھے یاد آرہا تھا۔

جب وہ بتارہے تھے کہ 1947ء میں انگریز کے تسلط سے آزادی اور غدر کے وقت میری عمر تیرہ چودہ برس کے لگ بھگ تھی ہم پرانا میرپور کے علاقہ جڑی کس میں رہائش پذیر تھے میرپور سمیت پورے آزادکشمیر سے ہندوؤں و سکھوں کو بھگایا جارہا تھا تاکہ ہم مسلمان ایک آزاد ملک پاکستان میں اسلامی طرز اور نظریہ حیات کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں۔ امن ہوئے ابھی دودہائیاں بھی نہ گزر پائی تھیں کہ منگلاڈیم کا منصوبہ شروع ہونے پر ہمیں اپنا آبائی علاقہ چھوڑنا پڑا ۔

نئی جگہ آباد ہونے سے بیروزگاری اورغربت نے ڈیرے ڈال لیے۔ چند سال بعد ستر کی دہائی میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی کاوشوں کی وجہ سے متاثرین منگلا ڈیم کو برطانیہ میں کام کرنے کے لیے مواقع اور ورک ویزے ملنے شروع ہوئے تو دیگر کی طرح میرے خاندان سے میں بھی یورپ میں پہنچ گیا

لیکن گوروں کی ثقافت اور کلچر کو دیکھ کر میرا من خوش نہ ہوسکا ساتھ جانیوالوں کی اکثریت نے مستقل رہائش کے لیے برٹش پاسپورٹ کی درخواستیں دیکر سرخ پاسپورٹ حاصل کرلیے بعدازاں اپنی اولاد خاندان بھی ادھر بلا لیاور ہمیشہ کے لیے برطانوی شہریت اختیار کرلی لیکن میں نے تیس سالہ سکونت کے دوران پاکستان کے سبز پاسپورٹ کو ہی اپنے گلے کا ہار بنائے رکھا۔

ملوں وفیکٹریوں میں محنت کرکے زرق حلال کمایا ساٹھ سال عمر ہونے پر برطانیہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیرآ باد کہہ کر پاکستان آگیا میرا سوال تھا کہ آپ نے دیگر لوگوں کی طرح برطانیہ میں مستقل طور پر رہنے کو کیوں نہ ترجیح دی تو ان کا جواب سن کر میں حیران رہ گیا جس سے میرے جذبہ حب الوطنی کو مزید تقویت ملی انھوں نے بتایا کہ انگلینڈ کی کمائی سے آج ہم بڑے بڑے پلازوں اور بنگلوں کے مالک تو بن گئے ہیں ۔

لیکن وہاں کی مادر پدر آزادی نے ہماری نسلوں کو‘ ہماری ثقافت و روایات کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے آج ہم ادھرکے رہے نہ ادھر کے۔ میں آج مطمئن و پرسکون ہوں کہ میں نے اپنے خاندان کو پاکستان میں ہی رکھنے کو فوقیت دی یہی وجہ ہے کہ ہمارا خاندان ایک مٹھی میں سکہ بند ہے۔

خوشحال ہے اولادیں تابعدار اور صوم و صلوۃ کی پابند ہیں میری دعا ہے کہ مجھے موت بھی اپنی مٹی میں آئے اور گور بھی اسی دھرتی میں ہو بابا گودر گزشتہ برس داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ان کی سوچ و فکر کو میں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں آج بھی ہمیں پاکستان اور پاکستانی پاسپورٹ کی قدر کرنیوالے بابا گودر جیسی شخصیات کی ضرورت ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں