172

آمریت کے سایہ تلے جمہوریت

ویسے تو جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں سراسر دھوکہ ہی دھوکہ ہے ، عوام کو اس دھوکے میں رکھا جاتا ہے کہ عوام کی حکومت عوام کے ذریعے ہو رہی ہے لیکن اصل میں ہوتا ایسا نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی اکثریت کی حکومت ہوتی ہے بلکہ یہ ان کی حکومت ہوتی ہے جو دوسروں سے زیادہ ووٹ لے لیں ، اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ اس میں نہ تو کسی کی اہلیت دیکھی جاتی ہے

اور نہ قابلیت ، نہ دیانت داری دیکھی جاتی ہے اور نہ ایمانداری بلکہ اس میں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس نے زیادہ ووٹ لیے ہیں یا کس کے حق میں آراء زیادہ ہیں بس اسی کو منتخب کر لیا جاتا ہے اور اسی طرح کسی قانون کو بنانے میں بھی اکثریت کی رائے کو دیکھا جاتا ہے چاہے ایک طرف ایک ہزار دین دار ، سمجھدار ، پڑھے لکھے اور دیانت دار لوگ ہوں جبکہ دوسری طرف ایک ہزار ایک چور ، ڈاکو ، لٹیرے ، نا اہل ، ان پڑھ اور گنوار ہوں تو یہاں پر جمہوریت کہتی ہے کہ بات ان کی مانی جائے گی جو اکثریت میں ہیں ۔ پھر ہ میں اسلامی جمہوریت کا درس دیا جاتا ہے

کہ پاکستان میں اسلامی جمہوری نظام قائم ہے ، اسلامی جمہوری نظام بذات خود کوئی چیز نہیں ہے یا تو اسلام ہے یا جمہوریت ہے یہ اسلامی جمہوری نظام کچھ نہیں ہوتا بلکہ یہ مغربی جمہوریت کو ہی اسلام کا لبادہ اوڑھا کر پیش کر دیا گیا ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مغربی جمہوریت اور ہماری اس نام نہاد اسلامی جمہوریت میں کوئی فرق نہیں ہے تمام کے تمام قوانین وہی کافرانہ جمہوریت والے ہی چل رہے ہیں پورے کا پورا نظام وہی مغربی جمہوریت والا ہے

اسلام کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ اسلام کا تو فقط نام لیا گیا ہے ورنہ اسلامی اصولوں کو دیکھیں تو وہ مغربی جمہوریت سے یا ہمارے ہاں جو راءج نام نہاداسلامی جمہوریت ہے اس سے بہت مختلف ہیں وہاں پر ہر طرح کا شخص حکمران بننے کا حقدار نہیں ہے بلکہ اس میں حکمرانی کے لیے بہت سی شرائط ہیں جن پرحکمران کا پورا اترنا ضروری ہے

لیکن ہماری نام نہاد اسلامی جمہوریت میں تو ایسا کچھ نہیں بلکہ مغرب کی طرح ہی ہر شخص کو حکومت کرنے کا حق حاصل ہے جو شخص بھی اٹھے اور کاغذات نامزدگی جمع کروا دے اور اس پہ ووٹنگ ہوگی اگر وہ زیادہ ووٹ لے لیتا ہے تو اس کی تمام تر کوتاہیوں ، برائیوں ، نا اہلیوں ، خامیوں اور بددیانتیوں کو نظر انداز کر کے حکمران بنا دیا جاتا ہے ۔ ان تمام تر خامیوں کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر تم اس جمہوریت کا نام لیتے ہی ہو تو پھر پوری طرح سے لو اور اس پر پوری طرح عمل تو کرو

اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کا راگ تو الاپا جاتا ہے کوئی جمہوریت کے خلاف بات تو کر کے دکھائے اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے جیسا کلمہ کفر کہنے والے کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا ۔ جمہوریت کو اتنا اچھا اور اتنا مزین کر کے پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے اس سے بہتر نظام ہی کوئی نہیں ہو سکتا حالانکہ 1400 سال قبل اسلام نے جو نظام دیا وہ سب سے بہترین نظام ہے یقینا اس سے بہتر کوئی نظام نہیں ہو سکتا ۔

ہم نے مسلمان ہونے کے باوجود اسے فراموش کر رکھا ہے ۔ بہرحال اگر جمہوریت کا نام لے ہی رہے ہیں ملک میں جمہوری نظام قائم کرنے کے دعوے کر ہی رہے ہیں تو پھر اس پر تو پورا اتر کے دکھائیں اب ملک میں جمہوری نظام تو قائم ہے لیکن دراصل یہ جمہوری نظام آمریت کے تحت ہی چل رہا ہے یعنی بظاہر تو جمہوریت ہے لیکن اندرون خانہ کچھ اور ہی چل رہا ہے ۔ عوام کو اس بات پر ورغلایا جاتا ہے کہ ان کے ووٹوں سے حکومت بنی ہے مگر ا الیکشن میں جو کچھ ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہی ہے ۔ عوام کسی کو ووٹ دیتے ہیں منتخب کوئی ہو جاتاہے ،

عوام کسی کو چاہتے ہیں حکمران کوئی اور بن جاتا ہے شام کو الیکشن کے نتاءج کچھ اور ہوتے ہیں صبح اٹھ کر دیکھیں تو بالکل الٹ ہو چکا ہوتا ہے ۔ اداروں کی دخل اندازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ، اب تو سر عام سب کچھ ہو رہا ہے، یعنی جمہوریت کے نام پر بھی عوام کو یہاں پر دھوکے میں ہی رکھا گیا ہے ورنہ جمہوریت بھی یہاں پر موجود نہیں ہے کم از کم جمہوریت ہی ہوتی حقیقی جمہوریت جس طرح مغربی ممالک میں راءج ہے تو پھر بھی ہمارا یہ حال نہ ہوتا اب یہاں پر ہم نے جمہوری نظام تو قائم کر رکھا ہے لیکن عملاًکچھ اور ہی نظام یہاں پر چل رہا ہے

جس کی وجہ سے ہم ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں اسلامی نظام اگر قائم نہیں کرنا چاہتے ، اتنے ہی اسلام سے بیزار ہو تو کم از کم مغربی جمہوری نظام جس کو تم نے یہاں پر راءج کرنے کا دعوی کر رکھا ہے اپنے اس دعوے پر ہی پورے اتر جاؤ اور اسی نظام کو یہاں پر قائم کر کر دو لیکن یہ اس نظام کو قائم کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہیں ۔ یہ صرف وہی نظام چاہتے ہیں

جس سے ان کا بھلا ہو، انہیں ملک اور عوام کی خیر خواہی کے سے کوئی سروکار نہیں ، انہیں اپنی اور اپنے اداروں کے افسروں کی بھلائی زیادہ عزیز ہے انہیں صرف وہ چیزیں عزیز ہیں جو ان کے اداروں کو ترقی دے سکیں فروغ دے سکیں اور ان کے افسروں کے معیار زندگی کو بہتر سے بہتر بنا سکیں جس میں یہ پوری طرح سے کامیاب ہیں ۔ ملک کو ڈبو دیا گیا ہے ، ملک جہاں جاتا ہے جائے ، اندھیروں میں جاتا ہے تو جائے

لیکن یہ اپنے اس نظام کے اندر پوری طرح سے کامیاب ہیں اس نظام کو راءج کر کے یہ ملک پر پوری طرح سے حکومت کر رہے ہیں ۔ عوام اور ملک جہاں جاتے ہیں جائیں ملک اور عوام کا نظام جیسے کیسے چل رہا ہے بلکہ کہاں چل رہا ہے ;238; سب کچھ رکا ہوا ہے بلکہ مزید پیچھے کو جا رہا ہے لیکن ان کا نظام بہترین چل رہا ہے تو انہیں کسی چیز سے کوئی سروکار نہیں ۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں