columns 207

ضیاء الحق کی موت‘حادثہ یا سازش پروفیسر محمد حسین

سترہ اگست 1988ء کوصدر پاکستان اور مسلح افواج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق کی ناگہانی موت کی طرف روانگی سے قبل سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اسی روز ضیاء الحق بہاولپور کے قریب ٹامیوالی فائرنگ رینج میں امریکی ساختہ ایم ون اے ون اورمقامی طور پر تیار کردہ الخالد ٹینک کی آزمائشی کار کردگی دیکھنے آئے تھے

بہاولپور ائیر پورٹ سے ان کے طیارے نے ساڑھے تین بجے پرواز بھری ضیاء الحق کے ساتھ امریکی ساختہ سی ون تھرٹی پر کولیس طیارے میں جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئر مین جنرل اختر عبد الرحمن، چیف آف جنرل سٹاف جنرل افضل، میجر جنرل محمد حسین اعوان کے علاوہ پاکستان میں امریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور ڈیفنس اتاشی بریگیڈ ئیر جنرل پر پر ٹ وا سوم سمیت اُنتیس افراد سوار تھے سترہ اگست کی شام ملک میں غیر یقینی حالات تھے

صدر مملکت کے ساتھ ساتھ فوج کی اعلیٰ قیادت کی اچانک موت سے ملک کا کوئی آئینی سربراہ تھا نہ ہی بری فوج کا سپہ سالار بہاولپور کے قریب بستی لالا کمال میں طیارے کے ملبے سے اٹھنے والے سیاہ دھوئیں نے قومی افق پر سازشی نظریات، شکوک و شبہات اور اندیشوں کی سیاہی پھیلادی ساتھ ہی ضیاء الحق کے مجوزہ نئے نظام کی قسمت بھی تاریکی کے حوالے ہو گئی گیارہ برس تک پاکستان کی سیاسی اور دفاعی تقدیر کے مالک بنے رہنے والے ضیاء الحق کی جان لینے کی پہلے بھی کوششیں کی گئیں ۔

سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے بیان دیا کہ میں جنرل ضیاء الحق کے ساتھ تھا اور میں انہیں جہاز تک چھوڑنے آیا سب لوگ جہاز میں بیٹھ چکے تھے، جہاز میں داخل ہوتے ہوئے ضیاء الحق نے کہا کہ آپ بھی رہے ہیں مگر آپ کا تو اپنا جہاز ہے جو سامنے کھڑا تھا جی ہاں میں اپنے جہاز سے آؤں گا اللہ حافظ اُن کا جہاز ٹیک آف کر گیا اور اس کے ساتھ میں بھی روانہ ہوا ابھی کوئی دس منٹ ہوئے تھے

کہ میرے پائلٹ کرنل معراج نے پریشانی کے عالم میں بتایا کہ سر اسلام آباد کنٹرول کا پاکستان ون سے رابطہ نہیں ہو رہا ہے میں بھی کوشش کر رہا ہوں لیکن کو ئی رسپانس نہیں ہے اللہ رحم کرے کیا ہو سکتا ہے ہم سب دعائیں پڑھنے لگے پائلٹ نے بتایا کہ وہ سامنے دھواں نظر آ رہا ہے دوسرے ہی لمحے ہمارا جہاز اس کے قریب پہنچ چکا تھا نیچے ایک پہلی کاپٹرپر بھی اُتر رہا تھا جو ملتان جارہا تھا ہمارا جہاز اُوپر چکر لگاتا رہا ہیلی کاپٹر کے پائلٹ سے رابطہ کیا انہوں نے بتایا کہ سی ون تھرٹی کریش ہو گیا ہے

آگ لگی ہوئی ہے کوئی زندہ نظر نہیں آرہا ہے چو نتیس برس قبل کی بات ہے طیارے کی تباہی کے واقعہ پر آج بھی پر اسراریت اور سازشی نظریات کی گرد جمی ہوئی ہے اسلم بیگ کہتے ہیں کہ جنرل شمیم عالم نے تمام مسافروں کی موت کی اطلاع دی انہوں نے واپس بہاولپور جانے یا جائے حادثہ پر پہنچنے کے بجائے واپس راولپنڈی آنا مناسب خیال کیا جہاں بحری اور فضائی افواج کے سربراہوں کے مشورے کے بعد آئینی راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا

شام ساڑھے سات بجے سینیٹ کے چیئر مین غلام اسحق خان کو بلا کرانہیں صدر کا منصب سنبھالنے کا کہا گیا ضیاء کی موت کو تین گھنٹے تک راز میں رکھا گیا اس دوران پس پردہ سیاسی عمل زور وشور سے جاری رہا اسلم بیگ کے دفتر میں دو امکانات پر غور ہوا ایک یہ کہ ملک میں مارشل لاء لگا دیا جائے دوسرا یہ کہ آئینی راستہ اختیار کیا جائے

آئین میں واضح لکھا ہوا ہے کہ صدر مملکت کی موت یا ملک میں غیر موجودگی سے چیئرمین سینیٹ خود بخود صدر بن جائے گا غلام اسحق جان کو تو خود بخود صدر ہو جانا چاہئے تھا آئین کی واضح ہدایات میں تاخیر کا جواز نہ تھا بلکہ ایسا کر نا رو گر دانی کے مترادف تھا طیارہ حادثے سے ملکی وغیر ملکی میڈیا میں نت کئی افوا ہوں ! اور سازشی کہانیوں کا سیلاب امڈ آیا ابتدء ا میں یہ طلاعات گردش کرنا شروع ہوگئیں

کہ طیارے کو بھارتی سرحد جو کہ وہاں سے 80 کلومیٹرکے فاصلے پر تھی سے میزائل کے ذریعے نشانہ بنایا گیاہے ان اندیشوں کو اس لئے بھی تقویت ملی جس میں واضح ہو گیا تھا کہ طیارے کی تباہی میں کسی کیمیکل یا گیس کی کوئی موجودگی ہو گی پائلٹ نے انہیں واپس کال بھی نہیں دی اس کا مطلب یہ ہے کہ حادثہ کے پیچھے کو کی سازش تھی پاکستان اور امریکہ کے فضائی ماہرین کی مشترکہ ٹیم نے تحقیقات کیں امریکی اہلکاروں کا زور اس بات پر تھا کے از خود یا کسی بیرونی عمل سے پائلٹ کا طیارے پر سے کنٹرول ختم ہو گیا تھا

اسی بنیاد پر یہ مفروضہ قائم کیا گیا کہ طیارے کے مکینیکل یائے بیڈ رادیک نظام میں خرابی پیدا ہوئی ہوگی جو مادے کا باعث بنی ۔ دوسرا نظریہ طیارے کے سبوتاژ کا تھا جس کی چار ممکنہ صورتیں ہو سکتی تھیں خلاء کے کنٹرول سسٹم میں جان بوجھ کر تکنیکی خرابی پیدا کی گئی کاک پٹ میں کسی کسی شخص کی مداخلت حادثے کی وجہ بنی جہاز کے پائلٹس کو کسی طریقے سے معلوم یا مقدور کر دیا گیا چوتھا یہ کہ مجرمانہ منصوبہ بندی کے ذریعے دھما کہ خیز مواد استعمال کیا گیا اکٹھے کئے گئے

شواہد کا ایکٹر ان ما فکر و اسکوپ باطری میں تحریر کیا گیا ۔ جہاز کی سطح پر معمولی مواد کے ذروں کے نشانات پائے گئے اسی طرح طیارے کے مکینیکل نظام میں خرابی جانچنے کے لئے اس کے پمپ اور فلٹر کا بھی تجزیہ کیا گیا تو اس میں کسی خرابی کی نشاندہی نہ ہو سکی جہاز کی تباہی میں آموں کے ممکنہ کردار کے بارے میں بیان کیا گیا مفروضہ حقیقت کے قریب تر سمجھا گیا بہاولپور سے واپسی پر ضیا الحق کے طیارے میں آموں کی دوپیٹیاں رکھوائی گئی تھیں مبینہ طور پر یہ آم بہاولپور کے میئر اور ایک صوبائی وزیر کی طرف سے بھجوائے گئے تھے

جنہیں شامل تفتیش کیا گیا لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا انکو ائری کی رپورٹ میں اس بارے میں کہا گیا کہ آموں کی پیٹیوں میں بارودی مواد سے نکلنے والی گیس نے مسافروں اورپائلٹس کو حواس باختہ کر دیا جس کی وجہ سے طیارہ تباہ ہواکہ پندرہ اگست کو بھارتی وزیراعظم راجیو گا ندھی نے سکھوں کی حمایت اور کشمیر کے حوالے سے پاکستان کو خبر دارکیا تھا اسلام آباد کے سفارتی حلقوں میں افغان خفیہ ایجنسی خاد اور سوویت یونین کے اشتراک سے تیار کردہ سازش کی مبینہ کہانیاں تو اتر سے دہر ائی جاتی رہیں

بھارت سو ویت یونین اور افغان ایجنسی کے مبینہ کر دار کے بارے شکوک وشبہات کو تقویت اس بات سے بھی ملی کہ اسلم بیگ کی طرف سے کابینہ کو بریفنگ میں اس کی طرف اشارہ کیا تھا ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کی سازش اندرونی لوگوں کی مد د کے بغیر کا میاب نہیں ہوتی سازشی نظریات کا دوسرا حصہ اندرون ملک کسی مبینہ سازش کے تصور پر مبنی تھا اس حوالے سے ضیاء الحق کے کچھ قریبی ساتھیوں اور ان کے سیاسی اور مذہبی مخالفین کا نام لیا جاتا رہا ملک کا ایک قابل ذکرطبقہ اور قومی پریس کا ایک حصہ اس واقعہ کے پیچھے امریکی اور اسرائیلی سازش کے تانے بانے تلاش کرنے میں مگن تھا

چار ہفتوں میں پاکستان ایئر فورس اور دیگر تین انکو ائریوں میں واضح ہو گیا تھا کہ طیارے کی تباہی میں کسی کیمیمکل یا گیس کا کوئی نشان ہی نہیں ۔ پائلٹ نے ایسی وائرلیس کال بھی نہیں دی اس کا مطلب یہ ہے کہ حادثہ کے پیچھے کوئی سازش تھی پاکستان اور امریکی کے فضائی ماہرین کی مشترکہ ٹیم نے تحقیقات کیں امریکی اہلکاروں کا زور اس بات پر تھا کہ ازخود یا کسی بیرونی عمل سے پائلٹ کا طیارے پر سے کنڑول ختم ہو گیا تھا

اسی بنیاد پر یہ مفروضہ قائم کیا گیا کہ طیارے کے مکینیکل یا ہا ئیڈرالک نظام میں خرابی پیدا ہو ئی ہو گی جو حادثے کا باعث بنی دوسرا نظریہ طیارے کے سبوتاژ کا تھا جس کی چار ممکنہ صورتیں ہو سکتی تھیں فلاءٹ کنٹرول سسٹم میں جان بوجھ کر تکنیکی خرابی پیدا کی گئی کاک پٹ میں کسی شخص کی مداخلت حادثے کی وجہ بنی جہاز کے پائلٹس کو کسی طریقے سے مفلوج یا معذور کر دیا گیا چو تھا

یہ کہ مجرمانہ منصوبہ بندی کے ذریعے دھماکہ خیر مواد استعمال کیا گیا اکٹھے کئے گئے شواہد کا الیکڑان ماءکر وسکو پ لیبارٹی میں تجزیہ کیا گیا جہاز کی سطح پر غیر معمولی مواد کے ذرورہ کے نشانات پائے گئے اسی طرح طیارے کے میکینکل نظام میں ممکنہ خرابی جانچنے کے لئے اس کے پمپ اور فلٹر ز کا بھی تجزیہ کیا گیا

تو اس میں کسی خرابی کی نشاندہی نہ ہو سکی جہاز کی تباہی میں آموں کے ممکنہ کردار کے بارے میں بیان کیا گیا مفروضہ حقیقت کے قریب تر سمجھا گیا بہاولپور سے واپسی پر ضیا ء الحق کے طیارے میں آموں کی دوپیٹیاں رکھوائی گئی تھیں مبینہ طور پر یہ آم بہاولپور کے مئیر اور ایک صوبائی وزیر کی طرف سے بھجوائے گئے تھے

جنہیں بعد میں شامل تفتیش کیاگیا لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا انکو ائری کی رپورٹ میں اس بارے میں کہا گیا کہ آموں کی پیٹیوں میں بارودی مواد سے نکلنے والی گیس نے مسافروں اور پائلٹس کو حواس سے بیگانہ کر دیا جس کی وجہ سے طیارہ تباہ ہوا ۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں