columns 151

اسرائیل فلسطین تنازعہ اور غزہ کی پٹی

غزہ کی پٹی اندھیرے میں ڈوب چکی ہے پانی بجلی ایندھن تمام زرائع مواصلات منقطع کر دئیے گئے ہیں گھر سکول بازار ہسپتال کچھ بھی محفوظ نہیں رہا موت کا اندھیرا لا شوں کے انبار کٹے پھٹے وجود اور اور جا بجا بکھرے انسانی اعضا بم بارود کی بو اور گردو غبار کا کالا دھواں۔ روشنی ہے تو بس آگ برساتے مزائیلوں کی ہے کربلا کے میدانوں کاحال تو کتابوں میں پڑھا تھا یا قصوں میں سنا تھا۔غزہ میں جاری بربریت کی داستان تو آج اور ابھی کی ہے۔اس دنیا کی جہاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ہمیں گھر بیٹھے آنکھوں دیکھا حال دیکھاتا اور سنا تا ہے دل غمزدہ ہے آنکھیں نم ہیں بے بسی عروج پر ہے جب اپنے ہنستے مسکراتے بچوں کو دیکھو تو ان بچوں کا خیال آتا ہے جن کے ہاتھوں اور پاؤں پر ان کے والدین نا م اور والدیت لکھ رہے ہیں کہ نا جانے کسی لمحے مزائیل گرے اور سب خاک ہو جائے ایسی صورتحال میں اپنوں کوپہچاننے کا کوئی ذریعہ ہو اپنے پیاروں کو دفنا نے اور عمارتوں کے ملبے سے ڈھونڈتے اپنے بچوں کے جسمانی اعضاء ایک تھیلے میں جمع کرتے والدین بھی اب با قی نہ رہے یہ سب باتیں حقیقتاً بے معنی سی لگ رہی ہیں کیونکہ بحثیت انسان اور مسلمان ہم کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں جس بربریت ظالمنانہ اور وحشیانہ طریقے سے غزہ میں مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے اور سب طاقتیں جمع ہو کر مسلمانوں پر ٹوٹ چکی ہیں یہ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز ہے عالمی میڈیا ایک جانب اسرائیل کی اس وحشیانہ اور ظالمانہ کاروائیوں کی خدمت کر رہا ہے اور دوسری جانب بھی تھپکی دے رہا ہے اسرائیل ایک بدمست ہاتھی کی مانند اپنی راہ میں حائل ہر شے کو روندتا چلا جارہا ہے اور تمام اسلامی ممالک تماشائی بنے ہیں اسلامی دنیا کی طرف سے گیڈر بھبکیاں عروج پر ہیں اس دنیا کے تمام لیڈر قبلہ اول بچانے ظالموں سے نجات دلانے کے بجائے صرف مذمت کرنے کا فریضہ انجام دے رہی ہے ان کا گمان ہے کہ محض خدمت کرنے سے آسمان سے فرشتے قطار در قطاراتریں گئے اور فلسطینیوں کو نجات مل جائے گی یا قنوت نازلہ پڑھنے سے اور نصر من اللہ وفتح قریب کا ورد کرنے سے غیبی مدد آپہنچے گی یوں بیٹھے بیٹھے تو غزہ میں جاری بربریت کا خاتمہ ہو جائے گا وہاں تمام تر طاقتیں نسل کشی کے لیے آ چکی ہیں اور یہاں امت مسلمہ سوشل میڈیا پر فلسطین کے لیے جنگ لڑ رہی ہے اور تما م مسلم حکمران دن رات خدمت کی گردان کر رہے ہیں مری سمجھ سے باہر ہے کہ آخر کہاں ہیں ن لیگ کے وفادار کا رکنان اور سیاسی رہنما جو اپنے لیڈ ر کے استقبال کے لئے دور دراز علاقوں سے نکل آتے ہیں؟ کہاں ہیں پی پی پی کے جیالے جو اپنے لیڈ ر کی شہادت کو بھلائے نہیں بھولتے کہاں ہیں وہ تمام لوگ جو عمران خان کی گرفتاری پر ڈنڈے اٹھائے سڑکوں پر نکل آئے تھے اور سارے اسلام آباد کو آگ لگانے کی دھمکیاں دے رہے تھے جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کا سلسلہ جاری تھا ہم اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے لئے ایک پبج پر اکٹھے ہو سکتے ہیں اور اپنے مفادات اور سیاست و اقتداری کی خاطر ساری دنیا سے لڑ سکتے ہیں جہاں مظلوم و محکوم مسلمانوں کی بات تھی و ہاں محض بیان بازی سے کام لیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں بہت سی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اسرائیل کے ظلم پر اپنا احتجاج ریکاڑ کرایا ہے لیکن کیا مخص اتنا کا فی ہے تمام سیاسی و غیر سیاسی جماعتیں غیر مذہبی پیروکا ر پر یک جان اور یک زبان ہو کر مقتدر طبقے پر زور نہیں ڈال سکتے محض بیان بازی اور مذمت سے کا م نہیں چلے گا اسرائیل اور اس کے اتحٓادیوں کا ہر طریقے سے بائیکاٹ کیا جائے گا ہر طرح کے سفارتی تعلقات منطقع کر کے فلسطینوں کی مدد کی جائے گی اس لئے ہمیں سیاسی قوت استعمال کرنی پڑے یا عسکری ہمیں ہر حال میں فلسطینیوں کا ساتھ دینا ہو گا کیونکہ ہمارا اولین دینی فریضہ ہے ایک مسلمان ہونے سے پہلے انسان ہونا ضروری ہے اور اسلام ہمیں انسانیت کا جو درس دیتا ہے اس پر مخص باتوں سے عمل نہیں کیا جا سکتا اگر ہم پر ایسا وقت آگیا تو کوئی ہماری مدد نہیں کرے گا ہمارے میزائیل ہم پر ہی گرائے جائیں گے اور ہمارا اسلحہ اور بندوقیں کسی کے کام نہیں آئیں گی فلسطین کے ہمارے بہن بھائی آج یہودیوں کی بربریت کا شکار ہیں اور ہم جاگتی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے ورلڈکپ میں الجھے رہے اور کیا ہم نے پوری امت کو ایک جھنڈے تلے جمع کرنے اور اپنی سیاسی اور عسکری کو قوت سے مقابلہ پر تیار کیا ہم کونسی تاریح رقم کرنے جا رہے ہیں اس کا فیصلہ ابھی کرنا ہوگا اگر تمام دنیا کے مسلمان ظالم کا ساتھ دینے والوں معاشی بائیکاٹ کر سکتے ہیں تو ہم مل کر اور بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں آخر کتنے بچے بوڑھے نوجوان اورعورتیں مرنے کے بعد ہماری غیرت جا گے گی؟ آخر کتنے ہزاروں گھر اجڑنے کے بعد ہمیں کچھ کرنے کا خیال آئے گا؟ یہ بم میزائل بندو قیں اور اسلحہ ہم نے کو نسے وقت کے لئے سنبھال رکھے ہیں؟ اس سے زیادہ کٹھن اور کڑا وقت ابھی دیکھنا باقی ہے کیا؟ موت برحق ہے اور ہم سب نے یکے بعد دیگر ے اس دنیا سے رخصت ہوجانا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم عزت کی موت کو گلے لگائے گئے یا ذلت ورسوائی کی موت کا انتخاب کرتے ہیں؟ فیصلے کا وقت ابھی ہمارے پاس موجود ہے وگرنہ ذات باری تعالیٰ جو ہمیں آزما رہا ہے اس رب العالمین نے اپنا فیصلہ سنا دیا یقیناً ہم اس دنیاکے رہیں گے اور نہ ہی اگلی دنیا میں کامیابی نصیب ہو گی غزہ کی پٹی روئے زمین پر سب سے گنجان آباد اور غربت ذدہ علاقوں میں سے ایک ہے غزہ کی تاریخ ایسی متعدد مسلح تنازعوں سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے اس خطے کی حالیہ تاریخ تک پہنچنے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اس چھوٹی سی پٹی کی اپنی تاریخ کیا ہے جسے انہتائی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور خود فلسطین بھی دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل قرار دیتے ہیں ستمبر 1922میں اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن نے ایک امریکی وفد سے ملاقات میں کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ غزہ سمندر میں غرق ہو جائے لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ ناممکن ہے چنانچہ ہمیں کوئی حل نکالنا ہو گا اکتالیس کلو میٹر طویل اور دس کلو میٹر چوڑی غزہ کی پٹی اسرائیل مصر اور بحیرہ روم کے درمیان موجود ہے جہاں پچیس لاکھ لوگ بستے ہیں اس کی کہانی بیرونی حملوں اور قبضوں سے بھری ہوئی ہے مختلف زمانوں میں مختلف سلطنتوں نے اس پر حکومت کی اور اسے ناراض بھی کیا جن میں قدیم مصر سے لے کر سلطنت عثمانیہ تک دنیا کی طاقتور حکومتیں شامل رہیں 1917تک غزہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا جس کی پہلی عالمی جنگ میں شکست کے بعد یہ علاقہ بر طانیہ کے زیر اثر آیا 1919کی پیرس امن کا نفرنس میں فاتح یورپی طاقتوں نے ایک متحدہ عرب سلطنت کے قیام کو روکنے کیلئے پورے خطے کو تقسیم کر دیا غزہ برٹش مینڈیٹ کا حصہ بنا
جو1920سے1948تک وجود میں رہا دوسری جنگ عظیم کے بعد بر طانیہ نے فلسطین کے مقدر کا فیصلہ اقوام متحدہ کی جھولی میں ڈال دیا 1947میں اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے زریعے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو تین حصوں میں بانٹ دیا جائے بچپس فیصد علاقے پر یہودی اپنی ریاست بنالیں بیت المقدس کو عالمی مینڈ یٹ کے زیر اثر رکھا جائے اور باقی ماندہ حصہ بشمول غزہ مقامی عرب با شرموں کے حصے میں چلا جائے مئی 1948ء کو جب اس قرار داد نے فلسطین سے بر طانوی راج کا خاتمہ کیا تو اسی دن اسرائیل کی آزاد ریاست قائم کر لی گئی اوریوں پہلی عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا جس میں لاکھوں مقامی فلسطینی بے گھر ہوئے اور غزہ کی پٹی میں بس گئے پہلی عرب اسرائیل جنگ کا خاتمہ ہوا تو غزہ کی پٹی پر مصر کا قبضہ ہو چکا تھا جو 1967ء تک بر قرار رہا 1969کی چھ روزہ جنگ کے دوران اسرائیل نے مصر اور شام پر مشتمل متحدہ عرب ریپبلک سمیت اور دن اور عراق کو شکست دی اور عرب اوردن اور مشرقی بیت المقدس سسمیت غزہ پر بھی قبصہ کر لیا اسرائیل کی اس فتح نے پر تشد د واقعات کے ایک ایسے تسلسل کو جنم دیا جو آج تک رُک نہیں سکا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں