columns 171

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ثبوت

جس طرح حضرت موسیؑ بالکل بے خبرتھے کہ انہیں نبی بنایا جانے والا ہے اور ایک عظیم الشان مشن پر وہ مامور کئے جانے والے ہیں ان کے حاشیہ ء خیال میں بھی اس کا ارادہ یا خواہش تودر کنار اس کی توقع تک بھی نہ گزری تھی بس یکا یک انھیں نبی بنا کر وہ حیرت انگیز کام ان سے لیا گیا جو ان کی سابق زندگی سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا تھا ٹھیک ایسا ہی معاملہ آنحضرت محمد ؐکے ساتھ بھی پیش آیا۔

مکہ کے لوگ جانتے تھے کہ غار حرا سے جس روز آپؐ نبوت کا پیغام لے کراترے اس دن سے پہلے تک آپ کی زندگی کیا تھی آپؐ کے کیا مشاغل کیا تھے آپ کی گفتگو کے موضوعات کیا تھے آپؐ کی دلچسپیاں اور سرگرمیاں کی نوعیت کیا تھی ان کی پوری زندگی صداقت دیانت امانت اور پاکبازی سے لبریز تھی انتہائی شرافت امن پسند اور حقوق پاس عہد اور خدمت خلق کا رنگ غیر معمولی شان کے ساتھ نمایاں تھا مگر اس میں کوئی ایسی چیز موجود نہ تھی جس کی بنا پرکسی کے وہم و گمان پر یہ خیال گزر سکتا ہو کہ یہ نیک بندہ کل نبوت کا دعوہ لے کر اٹھنے والا ہے

آپ سے قریب ترین ربط ضبط رکھنے والوں میں آپ ؐ کے رشتہ داروں اور ہمسایوں دوستوں میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ پہلے سے نبی بننے کی تیاری کررہے تھے کسی نے ان مضامین مسائل اور موضوعات کے متعلق کبھی بھی ایک لفظ تک آپ کی زبان سے نہ سنا تھا جو غار حرا کی اس انقلابی ساعت کے بعد یکایک آپ کی زبان پر جاری ہونا شروع ہو گئے کسی نے آپ کو وہ مخصوص زبان اور وہ الفاظ اور اصطلاحات استعمال کے کرتے نہ سنا تھا۔

جو اچانک قران القریم کی صورت میں لوگ آپ سے سننے لگے اور کبھی آپ وعظ کہنے کھڑے نہ ہوئے تھے کبھی کوئی دعوت لے کر نہ اُٹھے تھے بلکہ آپ کی کسی سرگرمی سے یہ گمان تک نہ ہوتا تھا کہ آپ ؐاجتماعی مسائل کے حل یا مذہبی اصلاح یا اخلاقی اصلاح کے لئے کوئی کام کرنے کی فکر میں اس انقلابی ساعت سے ایک روز پہلے تک آپ کی زندگی ایک ایسے تاجر کی زندگی نظر آتی تھی جو سیدھے سادے جائز طریقے سے اپنی روزی کماتا ہے اور اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی سے رہتا ہے مہمانوں کی تواضع غریبوں کی مدد اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتاہے اور کبھی کبھی عبادت کرنے کے لئے خلوت میں جا بیٹھتا ہے

ایسے شخص کا یکا یک ایک عالمگیر زلزلہ ڈال دینے والی خطابت کے ساتھ اٹھنا ایک انقلاب انگیزدعوت شروع کر دینا ایک مستقل فلسفہ حیات اور نظام فکر واخلاق لے کر سامنے آجانا ا تنا بڑا تغیر ہے جو انسانی نفسیات کے لخاط سے کسی بناوٹ اور تیاری اور ارادی کوشش کے نتیجے میں قطعاً رونما نہیں ہو سکتا اس لئے ایسی ہر کوشش اور تیاری ارتقاء کے مراخل سے گزرتی ہے اور یہ مراخل ان لوگوں سے کبھی مخفی نہیں رہ سکتے جن کے درمیان آدمی شب و روز زندگی گزاردیتا ہے

اگر آنحضرتؐ کی تیاری کی زندگی ان مراخل سے گزری ہوتی تو مکہ میں سینکڑوں زبانیں یہ کہنے والے ہوتیں کہ ہم نہ کہتے ہیں کہ یہ شخص ایک دن بڑا دعوہ کر کے اٹھنے والا ہے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ کفار مکہ نے آپ ؐپر ہر طر ح کے اعتراضات کئے مگرایسا اعتراض کرنے والا ان میں سے کوئی ایک شخص بھی نہ تھا پھر یہ بات کے آپ خود بھی نبوت کے خواہشمند یا اس کے لئے متوقع اور منتظر نہ تھے بلکہ پوری دنیا بے خبری کی حالت میں اچانک آپ کو اس معاملے میں سابقہ پیش آگیا

اس کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے جو احادیث میں آغاز وحی کی کیفیت کے متعلق منقول ہوا ہے جبرائیل سے پہلی ملاقات اور سورہ علق کی ابتدائی آیات کا نزول کے بعد آپؐ غار حرا سے کا پنتے او رروتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں۔ بیوی حضرت خدیجہؓ
سے کہتے ہیں کہ مجھے اڑھاؤ مجھے اُڑھاؤ کچھ دیر کے بعد جب ذرا خوفزدگی کی کیفیت دور ہوتی ہے اور اپنی رفیق زندگی حضرت خدیجہؓ کو سارا ماجرا سنا کر کہتے ہیں کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے وہ فوراً جواب دیتی ہیں کہ ہر گز نہیں۔ آپ کو اللہ کبھی رنج میں نہ ڈالے کا آپ تو قرابت داروں کے حق ادا کرتے ہیں

بے کس کو سہارا دیتے ہیں بے دستگیری کرتے ہیں مہمانوں کی تواضع کر تے ہیں۔ ہر کار خیر میں مدد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں پھر وہ آپ ؐ کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس جاتی ہیں جو ان کے چچا زاد بھائی اور اہل کتاب میں سے ایک کی ذی علم اور راستباز آدمی تھے وہ آپ سے سارا واقعہ سننے کے بعد بلا تا مل کہتے ہیں کہ جو آپ ؐ کے پاس آیا تھا وہی ناموس یعنی کار خاص پر مامور فرشتہ ہے جو موسیؑ کے پاس آتا تھا کاش میں جوان ہوتا اور اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی آپ ؐپوچھتے ہیں کہ کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہاں، کوئی شخص ایسا نہیں گزرا کہ وہ چیز لیکر آیا ہو جو آپ لائے ہیں اور لوگ اُس کے دشمن نہ ہو گئے ہوں۔

یہ پورا واقعہ اس حالت کی تصویر پیش کر دیتا ہے جو بالکل فطری طور پر یکایک خلاف توقع ایک انتہائی اور غیر معمولی تجربہ پیش آجانے سے کسی سیدھے سادے انسان پر طاری ہو سکتی ہے اگر آنحضرتؐ پہلے سے نبی بننے کی فکر میں ہوتے اور اپنے متعلق یہ سوچ رہے ہوتے ہے کہ مجھ جیسے آدمی کو نبی ہونا چاہیے اور اس انتظار میں مراقبہ کر کے اپنے ذہن پر زور ڈال رہے ہوتے کہ کب کوئی فرستہ آتا ہے اور میرے پاس پیغام لاتا ہے تو غارحرا والا معاملہ پیش آتے ہی ٓآپ خوشی سے اچھل پڑتے اور بڑے دم دعوے کے ساتھ پہاڑ سے اتر کے سیدھے اپنی قوم کے سامنے پہنچتے اور نبوت کا اعلان کر دیتے

لیکن اس کے برعکس حالت یہ ہے کہ جو کچھ دیکھا تھا اُس پر ششدر رہ جاتے ہیں کا نپتے اور لرزتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں لحاف اوڑھ کر لیٹ جاتے ہیں زرا دل ٹھہرتا ہے تو اپنی رفیق حیات حضرت خدیجہؓ کو چپکے سے بتاتے ہیں کہ آج غار کی تنہائی میں مجھ پر یہ حادثہ گزراہے معلوم نہیں کیا ہونے والا ہے مجھے اپنی جان کی خیر نظر نہیں آتی یہ کیفیت نبوتؐ کے کسی امیدوار کی کیفیت سے کس قدر مختلف ہے پھر بیوی سے بڑھ کر شوہر کی زندگی اس کے حالات اور اُس کے خیالات کو کون جان سکتا ہے؟

اگر ان کے تجربہ میں پہلے یہ بات آئی ہوئی ہوتی کہ میاں نبوت کے امید وار ہیں اور ہر وقت فرشتے کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں تو ان کا جواب ہرگز وہ نہ ہوتا جو حضرت خدیجہؓ نے دیا لیکن وہ پندرہ برس کی رفاقت میں آپ کی زندگی کا جو رنگ دیکھ چکی تھیں اُس کی بنا پر انہیں یہ بات سمجھنے میں ایک لمحہ بھی دیر نہ لگی کہ وہ ایسے نیک اور بے لوث انسان کے پاس شیطان نہیں آسکتا اوراللہ ہی اس کو اتنی بڑی آزمائش میں ڈال سکتا ہے اس نے جو کچھ دیکھا وہ سراسر حقیقت ہے اور یہی معاملہ ورقہ بن لوفل کا بھی ہے

وہ کوئی باہر کے آدمی نہ تھے بلکہ حضورؐ کی اپنی برادری اور ان کے قریبی اور رشتے سے برادربستی تھے پھر ایک ذی علم عیسائی ہونے کی حیثیت سے نبوت اور کتاب اور وحی کو بناوٹ اور تصنع سے ممیز کر سکتے تھے عمر میں کئی سال بڑے ہونے کی وجہ سے آپؐ کی پوری زندگی بچپن سے اس وقت تک ان کے سامنے تھی انھوں نے بھی آپﷺ کی زبان سے غارحرا کی سرگزشت سنتے ہی فوراً کہہ دیا آپ ﷺ کے پاس آنے والا یقیناً وہی فرشتہ ہے جو موسیؑ پر وحی لاتا تھا کیونکہ یہاں بھی وحی صورت پیش آئی تھی جو حضرت موسیؑ کے ساتھ پیش آئی تھی اور انتہائی پاکیزہ سیرت کا سیدھا سادہ انسان بلکل بھائی الذہن ہے نبوت کی فکر میں رہتا تو درکنار اس کے حصول کا تصور اس کے خاشیہ ء خیال میں کبھی نہیں آیا تھا اور وہ اچانک پورے ہوش حواس کی حالت میں اعلانیہ اس تجربہ سے دو چار ہوتا ہے

اسی چیز نے ان کو بلا ادنیٰ تامل اس نتیجہ تک پہنچا دیا کہ یہاں کوئی فریب لغس یا شیطانی کرشمہ نہیں
ہے بلکہ اس سچے انسان نے اپنے کسی ارادے اور خواہش کے بغیر جو کچھ دیکھا ہے وہ در اصل حقیقت کا شاہدہ ہے یہ محمدؐکی نبوت کا ایک ایسا بین ثبوت ہے کہ ایک حقیقت پسند انسان مشکل ہی سے اس کا انکار کر سکتا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں