167

دین اسلام ہی نشانہ کیوں ;238;

اللّہ رب العزت کے ہاں پسندیدہ دین صرف اورصرف دین اسلام ہی ہے چنانچہ سورۃ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے بےشک اللہ کے ہاں دین دین اسلام ہی ہے اور انسان کی نجات بھی دین اسلام پرعمل کئے بغیر ممکن نہیں لیکن آج دنیا میں بے شمارمذاہب اپنا وجود رکھتے ہیں باوجود اس کے کہ ان سب میں ممتاز کامل واکمل دین صرف اسلام ہے اور جنت کے حقدارمسلمان ہیں لیکن دین اسلام اپنے برحق ہونے کے باوجود نشانہ پر ہے

کبھی غیروں کے ہاتھوں اورکبھی اپنوں کے ہاتھوں ‘یوں تودین دشمن عناصرنے روز اوّل سے ہی دین اور دین داروں سے بغض وعداوت کواپنا مشغلہ بنایا ہوا ہے انکی کوشش یہی رہی کہ نعوذباللہ دین اسلام کوختم کردیں لیکن اللہ کے حکم سے وہ اپنی ان مذموم کوششوں میں بری طرح ناکام ہونے کے ساتھ ساتھ ذلیل ورسواء ہوئے جب ان دین دشمن عناصرکواپنی ناکامی نظرآئی تو انہوں نے اپنی ان مذموم حرکات سے سبق حاصل کرکے توبہ تائب ہونے کی بجائے ایک قدم اورآگے بڑھ کرمسلمانوں کونشانہ بنانا شروع کیا

حتی کہ یہ کوشش نبی اکرم شفیع اعظم;248;کے دورسے ہی شروع ہوئی لیکن جب وہ اس میں بھی ناکام ہوئے توانہوں نے سب سے اہم کوشش یہ شروع کردی کہ عام سادہ لوح مسلمانوں کو دین داروں سے اور دینی احکامات سے دورکرنے کی کوشش کرنے لگے وہ سمجھتے ہیں جب شکوک وشبہات پیدا کریں گئے تو مسلمانوں کوقابوکرنا آسان ہوگا لیکن یہاں بھی رکاوٹ علماء کرام ہیں جوان کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے ان کوان کے چنگل میں پھنسنے سے بچالیں گئے

چنانچہ اس مقصد میں وہ دین دشمن کسی حدتک کامیاب بھی ہوئے رفتہ رفتہ مسلمانوں کواپنے علماء کرام کے خلاف حفاظ وقراء کے خلاف کرنے میں مصروف عمل ہیں اب مسلمانوں میں بھی یہ چیز نظر آرہی ہے کہ وہ کھل کردین اسلام کے خلاف تو بات کرتے نہیں لیکن جب دین کے خلاف ان کواپنا غم وغصہ نکالنا ہوتاہے تو وہ علماء کرام کوتنقیدکا نشانہ بناکراپنے آپ کو وقتی تسکین دیتے ہیں وہ جانتے ہیں

کہ ان کے ہوتے ہوئے دین اسلام کے خلاف بول توسکتے نہیں اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی چور یا ڈاکو جب کسی جگہ قیمتی چیزچوری کرنے کی نیت سے جاتے ہیں تو وہ سب سے پہلے وہاں کی سیکورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں وہ اس چوکیدار پرحملہ آور ہوتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ محافظ کے ہوتے ہوئے ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے بلکل اسی طرح علماء کرام کوبھی اسی لئے نشانہ بنایا جاتا ہے کیوں کہ یہی تو انبیاء کرام علیہم السلام کے حقیقی وارث ہیں دین کے محافظ ہیں اسلام کے پہرہ دار ہیں اب علماء کرام کوتنقیدکانشانہ بنانے والا سمجھتا ہے علماء کرام دین اسلام کادرس دے رہے ہیں وہ معاشرتی مسائل سے آگاہی فراہم کررہے ہیں دین ودنیا کے مسائل احکام بیان فرمارہے ہیں توعلماء کرام ہی ان کے دشمن ہیں جبکہ وہ یہ بات سمجھنے سے کیوں قاصرہیں کہ علماء کرام مسائل بتاتے ہیں

بناتے نہیں مسائل تواللہ نے فرض کئے قرآن نے بیان کئے نبی اکرم شفیع اعظم;248; نے علمی عملی طورپرواضح کئے ذخیرہ احادیث مبارکہ میں جوموجودبھی ہیں علماء کرام توصرف راہنمائی کررہے ہیں معاشرے میں نیکی وخیرپھیلارہے ہیں اچھائی کا درس دیتے ہیں برائی سے روکتے ہیں عقائد ونظریات کی حفاظت کر تے ہیں علماء کرام کی جوذمہ داری معاشرے میں لگائی گئی انہوں نے بخوبی سر انجام دی بہرحال اسی طرح اگرکسی نے سنت رسول رکھی ہو اورکوئی گناہ کرلے یاپھرکسی جرم کا ارتکاب اس سے سرزد ہو جائے تو یہ کہتے ہیں

دیکھو جی داڑھی رکھ کریہ کام کرتاہے توسوال پیداہوتا ہے کیا اسے داڑھی نے کہا ایساکرو،اسی طرح اگرکسی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے جوتے چوری ہوجائیں تو لوگ کہتے ہیں دیکھو جی نمازی چوری کرتے ہیں اسی طرح کسی عالم دین سے کوئی گناہ ہو جائے توسب تنقیدکرنے والوں کارخ مدرسہ مسجد داڑھی پگڑی علماء کرام،حفاظ قراء کی طرف ہو جاتا ہے اگر اسی دین کو دین دارای کی ہی بنیادبناناہے

توسوال پیداہوتاہے کیا مسلمان بننے کے بعد کلمہ پڑھ کرکیا مسلمان برائیوں میں ملوث نہیں اس کی برائی کی وجہ سے اسلام پر انگلی اٹھا سکتے ہیں نہیں ہرگزنہیں کیاکلمہ گومسلمان چوری،ڈکیتی،زنا،سودخوری,قتل سمیت دیگر برائیاں نہیں کرتا جواب اثبات میں آتاہے کہ بلکل گناہ تومسلمان کرتا ہے لیکن کوئی بھی یہ نہیں کہتاکہ مسلمان ہوکرگناہ کرتے ہوتو اسلام قبول کرنے کاکیافائدہ سب یہی سوچتے ہیں

کہ اس میں وہ شخص مجرم ہے یاگناہ گارہے اس میں نا تو اسلام کا قصورہے اور ناہی مسلمان ہونا جرم ہے یہاں بھی یہی صورت حال ہے کہ انسان مسلمان بننے کے بعد سنت رسول رکھ لے یا علم دین حاصل کر لے یاپھر اپنے سینے میں اللّٰہ کی کتاب محفوظ کرلے اس کو احتیاط توضرورکرنی چاہیے لیکن اگر انسان ہونے کے ناطے اگراس سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تواسے ہی برا بھلا کہا جائے قصور وار ٹھہرایاجائے ناکہ اسلام کو،شعائر اسلام کو اس موقع پر میرے استاذ محترم بہت خوبصورت بات اور مثال دے کرسمجھاتے تھے

کہ اگرکسی مسجد میں چوری ہوجائے تو یہ نا کہا کروکہ مسجدکے نمازی چوری ہیں بلکہ یوں کہا کروچور نے نمازی کاحلیہ اختیار کرکہ چوری کی اس لئے ہ میں دین اسلام یا دین داروں کے خلاف زبان درازی سے قبل اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے ہ میں دوسروں کے عیب تلاش کرنے کی بجائے اپنی خامیوں پرنظرثانی کی ضرورت ہے یہ نہیں ہوناچاہیے کہ ہ میں جو احکامات سخت لگیں ہم ان سے بچ کران پرتنقیدکرتے ہوئے دین دشمن عناصرکے آلہ کاربنیں ہرحال میں اپنا،اپنے دین کا،اپنے اسلام کا نبی اکرم شفیع اعظم;248;کا اصحاب رسول;248;بزرگان دین علماء کرام کا اور مسلمانوں کادفاع بھی کرناچاہیے اور اتحاد و اتفاق کا قائم ودائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے ۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں