291

نڈر اور بے باک صحافی۔۔۔۔۔ عبدالخطیب چوہدری

کالج کی دوستی‘ہمیشہ ساتھ نبھائے

شاہد جمیل منہاس
ایڈیٹر عبدالخطیب چوہدری کا بچپن‘لڑکپن‘نوجوانی اور آج کی جوانی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں
کہا جاتا ہے کہ بڑی بڑی عمارتوں اور رنگ برنگے گھروں یا فرنیشڈ دفاتر کو دیکھ کر ان کی طرف مائل ہو جانے والے افراد اُن ناکا م ریسرز کی طرح ہوتے ہیں جو ساری زندگی دوڑتے رہتے ہیں۔اور آخر معلوم ہوتاہے کہ یہ تو وہ نُقطہ ہی نہیں کہ جس کو چھونے سے اُسے جیت ملنی تھی۔ میں نے اور آپ نے اکثر دیکھا کہ ایک ایسا شخص جسکا ماضی انتہائی داغدارہے مگر دولت کے بل بوتے پرایک شاندار دفتر کا ایم ڈی یا کسی معروف سکول سسٹم کی فرنچائیز کا مالک بن کر بیٹھ جائے تو معلوم ہے پھر کیا ہوتا ہے؟ جی ہاں وہ قوم کے نو نہالوں کے مُستقبل کو تاریک اور تبا ہ کرنے کا ذمہ دار قرار پاتا ہے۔اِس کے برعکس دو کمروں کے نجی یا سرکاری سکول میں ٹاٹ یا بوری پر بیٹھ کر پڑھانے والے ہمارے بڑوں یعنی اساتذہ نے زندگی کے ہر شعبے میں نایاب گوہر پیدا کر کے یہ ثابت کیا کہ محنت کرنے والا اور محنت نہ کرنے والا کسی صورت برابر ہو ہی نہیں سکتے۔اللہ کے فضل و کرم کے بعد کوئی چیز اگر کسی انسان کو کامیاب بناتی ہے تو وہ ہے تکبر کے بغیر محنت۔اِس کی زندہ مثال علاقے کی ترجمانی کرنے والا پرچہ پنڈی پوسٹ ہمارے سامنے ہے۔اِس اخبار کو جو افراد ہم تک لے کرآتے ہیں اگر آ پ کو اِن کے ماضی کے حقائق معلوم ہو جائیں تو خراجِ تحسین پیش کیئے بغیر آپ رہ نہ سکیں۔چیف ایڈیٹر عبدالخطیب چوہدری کا بچپن، لڑکپن، نوجوانی اور آج کی جوانی کسی سے ڈھکی چھپی نہیںہے۔میں اکثر اِن سے ملتا ہوں تو میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں کہ اُن کا شہید بھائی میرے سامنے آن کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ بھی ہر پل اپنے بھائی کو یاد کر کے اپنی آنکھیں سُرخ شال کی طرح کر لیتے ہیں۔اُن کا بچپن اور لڑکپن انتہائی آزمائش زدہ رہا۔ مگرکہا جاتا ہے کہ
©©©©’ ’ تندی¿ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیئے “
عبدالخطیب چوہدری طوفانوں سے پنجہ آزمائی کرتے کرتے دریا کی اُلٹ سمت بہتا رہا۔یعنی سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہتا رہا اور فولاد بن گیا۔آج عبدالخطیب چوہدری کو جھوٹ سے سخت نفرت ہے اور جس شخص کو جھوٹ سے سخت نفرت ہے جائے وہ اپنے خونی رشتوں تک کی مخالفت میں کھڑے ہو کر بھی ہر گز نہیں گھبراتا۔پنڈی پوسٹ کی پوری ٹیم خوبصورت موتیوں کی مالا ہے جس کا ہر ایک موتی نایا ب گوہر سے کم نہیں۔مگر باپ تو باپ ہی رہتا ہے۔بیٹے چاہے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے رہیں۔ ہاں البتہ ایسے بیٹوں کی موجودگی میں باپ کا سر فخر سے بُلند ہی رہتاہے۔بالکل ایسے ہی عبدالخطیب چوہدری کے زیر سایہ پلنے والے پنڈی پوسٹ کے رپورٹرز اپنے اُستا د کی طرح انتہائی اخلاص اور تحمل سے کام لے کر اِنصاف کے تقاضے پورے کرتے نظر آ تے ہیں۔ایک بات طے ہے کہ اس مقام تک لانے میںعبدالخطیب چوہدری کے ماضی کو تاریح سلام پیش کرتی ہے اور اگر ہم اَِس ماضی کو پڑھنا چاہیں تو اِتنا مشکل ہے جتنا تلوار کی دھار پر چلنا کھٹن ہو۔ چوہدری صاحب کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ ہوا یوں کہ میں جس اخبار میں کام کرتا تھاکسی وجہ سے اُس کی انتظامیہ نے چار ماہ تک ہمیں تنخواہ نہ دی۔ گھر کی تنگدستی بھی اپنے عروج پر تھی۔اِن حالات میں راتوں کی نیندیں تک حرام ہو چُکی تھیں۔وہ بتاتے ہیں کہ اُس دن چاند رات تھی اور مجھے کسی دوست نے بتایا کہ جلدی سے دفتر آئیں آج تنخواہ مل جائے گی۔ میری خوشی کی انتہا نہ تھی۔میں شام کو گاﺅ ں سے اسلام آ باد کی طرف روانہ ہو گیااور دل ہی دل میں اپنے گھر والوں کے لیئے کپڑے اور چھوٹے بہن بھائیو ں کے لیئے کھلونے خریدنے لگ گیااور میری یہ خریداری اسلام آباد اپنے دفترپہنچنے تک جاری رہی۔دفتر پہنچ کر کافی انتظار کیااور رات کو معلوم ہوا کہ تنحواہ آ ج بھی نہیں مل سکتی۔ عبدالخطیب چوہدری بتاتے ہیں کہ واپسی پر ایک بس میں سوار ہو کر اپنے گاﺅں کا رُخ کیا۔وہ مزید بتاتے ہیں کہ میں گھر پہنچنے تک روتا رہا۔ دوستو! عبدالخطیب چوہدری اگر چاہتا تو دو چار شرفاءکو بلیک میل کر کے دو چار خبریں لگو ا کر حرام کی کمائی سے اِس عارضی دُنیا کی عارضی خوشیاں خرید سکتا تھا مگر چونکہ وہ نیک والدین کی اولاد تھی لہذٰا حرام کی کمائی کو جوتے کی نوک پر رکھتا رہا۔ورنہ میں اور آپ خوب جانتے ہیں کہ کچھ افراد کی تنخواہیں ساری زندگی بینکوں میں جمع ہوتی رہتی ہیں کیونکہ اُنکی ضرورت اُن کے بغیر ہی پوری ہو رہی ہوتی ہے بناءکسی برکت کے۔جس اخبار کا مالک اتنا ایماندار اور حلال و حرام کی کمائی میں تمیز کرنے والا ہواُس کے ساتھ کام کرنے والے بھلا کیسے خود کوفروخت کر سکتے ہیں۔پنڈی پوسٹ کی کارگردگی کو دیکھتے ہوئے یہ بات و ثوق سے سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ سالگرہ ساتویں نہیں بلکہ یہ سالگرہ اپنے اندر اتنا ظرف رکھتی ہے کہ اگر اسے 70 ویں سالگرہ کہا جائے توبے جا نہ ہو گا۔” میرا دشمن مجھے کمزو ر سمجھنے  والا
مجھ کو دیکھے کبھی تاریح کے آئینے میں
معرکہ بدر میں کردار نبی ﷺ ہوتا ہوں
دشتِ کربلاء ہو تو میں ابنِ علّی ہوتا ہوں “
یاد رہے کسی ادارے کے سربراہ کا کردار ہی اُس کی ترقی یا تنزلی کا زسبب بنتاہے۔ہم نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے بُرج گرتے ہوئے دیکھے وہ اِس لیئے کہ گھر کا بڑا یعنی اِس ادارے کا سربراہ کردار کے حوالے سے ننگا تھا۔ اِس کے برعکس انتہائی کمزور اور نومولود اداروں کو فن کی بُلندیوں تک جاتے ہوئے دیکھا گیا۔ کیوں کہ اِن اِداروں کی سربراہان باکردار اور سینے میں پتھر کے بجائے دل رکھنے والے افراد ہوتے ہیں۔
لہذٰا پنڈی پوسٹ جو آج روشن ستارے کی طرح جگ مگ جگ مگ کر رہا ہے اِ س کی وجہ اِس کے سربراہ کا کردار ہے۔ عبدالخطیب چوہدری نے دراصل اپنی زمیں نہیں چھوڑی بلکہ اپنے خاندانی حسب و نصب اور رسم و رواج کا پاسدار رہا۔ لہذٰا ربّ کی ذات نے اُسے کامیاب کر دیا۔شہزاد رضا صاحب، زاہد صاحب، چوہدری جبار صاحب، چوہدری اشفاق صاحب،سردار بشارت اور اگر ان سب کا گلدستہ بنائیںتو اُسے آصف شاہ کا نام دے کر معاشرے کی سجاوٹ کا ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔یعنی یہ سب دوست پنڈی پوسٹ کے ہاتھ پاﺅں ، ٹانگیں اور دل و دماغ ہیں مگر آصف شاہ اِس وفا کا اُصول پرست پیکر ہے۔آصف شاہ پاک آرمی میں رہا تو اپنے فن کا لوہا منوایا اور جب صحافت کے میدان میں اُترا تو اس دشت بے کراں میں بے سہاروں کی امان بن کر آیا۔
الغرض پنڈی پوسٹ سے ملحقہ تمام رپورٹرز اور کالم نگار انتہائی اخلاص اور ایمانداری سے اپنا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ وقت کی اس تپتی دھوپ میں اور بے ثباتی کے اِس عالم میںسچ کا بول بالا وہی اِداراہ یا فرد کر سکتا ہے جو سچ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے۔ اور یہ سعادت ہر کسی کے حصّے میں نہیں آتی۔ در اصل پنڈی پوسٹ ایک پیغام کا نام ہے۔ جسے میں یوں بیان کروں گا۔
” تمہاری شہ پسندی سے جلے ہیں کتنے گھر دیکھو
کٹے ہیں کتنے سر دیکھو تمہیں معلوم کب ہو گا
بہا لو خون سڑکوں پر مگر اتنا تو سو چو تُم
{jcomments on}وطن جب خون مانگے گا تمہارے پاس کیا ہو گا “

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں