198

پنڈی پوسٹ کے ساتھ سفر کی داستان

columns

اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پنڈی پوسٹ نے اپنی کامیاب اشاعت کے گیارہ سال مکمل کرنے کے بعد بارھویں سال میں قدم رکھ دیا ہے اور امید واثق ہے کہ آئندہ بھی یہ سفر جاری رہے گا انشاء اللہ۔ پنڈی پوسٹ کے چیف ایڈیٹر جناب چوہدری عبدالخطیب صاحب کا یہ کہنا ہے کہ ہم صحافت کو بطور کاروبار تجارت کے بجائے خدمت کا جذبہ لے کر صحافت کے اس میدان میں اُترے تھے اور ہماری یہ خواہش تھی کہ ہم اللہ کے فضل و کرم سے کامیابی سے ہمکنار ہوں گے پنڈی پوسٹ کی کامیابی کا سہرا چیف ایڈیٹر صاحب عبدالخطیب چوہدری اور ان کی مخلص ٹیم کے سر سجتا ہے جنھوں نے دن رات محنت وجانفشانی سے کام کر کے پنڈی پوسٹ کو بام عروج تک پہنچایا ہے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پنڈی پوسٹ کی وجہ سے علاقائی اور ملکی مسائل اور خبروں کو حکام بالا تک پہنچاکر ان کا حل تلاش کرنے میں مدد دی ہے پنڈی پوسٹ سے رابطہ کرنے کی میری داستان یوں ہے کہ میں ایک دن مقامی اخبار فروش کے پاس بیٹھا ہواتھا کہ میری نظر پنڈی پوسٹ اخبار پر پڑی تو میں نے اخبار فروش سے پوچھا کہ پنڈی پوسٹ کے مالک کون ہیں اور وہ کہاں مل سکتے ہیں اخبار فروش نے کہا کہ وہ آپ کو شاہ باغ مل سکتے ہیں میں اسی وقت سائیکل پر سوار ہوا اور شاہ باغ کی طرف چل پڑا شاہ باغ پہنچ کر میں نے وہاں اخبار فروش سے وہی سوال کیا تو اخبار فروش نے جواب دیا کہ پنڈی پوسٹ کے چیف ایڈیٹر صاحب مانکیالہ میں ہیں اور وہاں ملاقات ہو سکتی ہے چنانچہ میں شاہ باغ سے سائیکل پر سوار ہو کر مانکیالہ کی طرف چل پڑا اور وہاں اخبار فروش سے وہی سوال کیا تو وہاں کے اخبار فروش نے جواب دیا کہ پنڈی پوسٹ کے چیف ایڈیٹر صاحب مانکیالہ میں نہیں رہتے بلکہ وہ تو روات رہتے ہیں اب میں نے سوچا کہ اگر میں روات گیا تو وہاں پر یقینا یہی جواب ملے گا کہ چیف ایڈیٹر صاحب تو راولپنڈی رہتے ہیں اور وہاں ہی ان سے ملاقات ہو سکتی اور پھر یہ بھی کہ میں سائیکل پر کہاں تک سفر کرتا پھروں اور پھر مانکیالہ سے گھر واپس ا ٓگیا اور مجھے چیف ایڈیٹر صاحب نہ مل سکے حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک لطیفہ ہی بنتا ہے کہ کسی نے یہ نہیں بتایا کہ چیف ایڈیٹر صاحب سردار مارکیٹ رہتے ہیں اور وہاں ان کا دفتر ہے اور وہ وہاں مل سکتے ہیں اس کے بعد ایساہوا کہ ایک دن میں ایک اخبار گھر لایا دیکھا کہ اس میں ایک فون نمبر درج تھا اور ساتھ ہی اس کا لکھا تھا کہ کمپیوٹر پر کام کرنے کے خواہشمند اس نمبر پر رابطہ کریں میں نے اپنے بیٹے عدیل کو وہ نمبر بتایا کہ اس نمبر پر کال کرکے پتہ کرو کہ کام کس قسم کا ہے اور یہ پوچھو کہ یہ کام کس جگہ پر ہے اور تنخواہ کے بارے میں بھی پوچھوکہ کتنی ہو گی میرے بیٹے عدیل نے اس نمبر پر رابطہ کیا تو چیف ایڈیٹر چوہدری عبدالخطیب صاحب نے میرے بیٹے کو اگلے دن اپنے دفتر میں بلالیا دوسرے دن میرا بیٹا عدیل چوہدری صاحب کے دفتر گیا اور جناب چوہدری صاحب نے اسے بھرتی کر لیا اور کام یہ بتایا کہ پنڈی پوسٹ اخبار بنانی ہے اور اس طرح میرا بیٹا و ہاں کام پر لگ گیا اسی دوران میرے بیٹے نے ایک دن مجھے کہا کہ پنڈی پوسٹ اخبار کے لیے کالم لکھ کر دیں تو میں نے ایک کالم لکھ کر دے دیا اور وہ اخبار میں شائع ہو گیا اور یوں میرا حوصلہ بڑھا اور میں نے مختلف موضوعات پر کالم لکھناشروع کر دیئے جو اخبار پنڈی پوسٹ میں شائع ہورہے ہیں اس وقت تک میرے کوئی تین سو سے زائد کالم اخبار میں شائع ہو چکے ہیں اسی دوران پنڈی پوسٹ کی چھٹی سالگرہ منانے کے لیے مجھے فنکشن میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی اور یہ سالگرہ چھ مئی 2018کو منائی گئی اور اسی دن چیف ایڈیٹرچوہدری عبدالخطیب صاحب سے یہ میری پہلی ملاقات ہوئی اور اس طرح مجھے چوہدری صاحب سے ملنے کا شرف حاصل ہوا اور اس فنکشن میں ہی مجھے چوہدری صاحب کی طرف سے شیلڈ عنایت فرمائی گئی اور انہوں نے میری زبردست حوصلہ افزائی کی جس پر میں نے چوہدری صاحب کا شکریہ ادا کیا حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ میں اس قابل نہیں بہر حال میں چوہدری جناب عبدالخطیب صاحب کا تہ دل سے مشکور ہوں کہ وہ میرے کالم من و عن شائع کر دیتے ہیں اور ان میں ایک لفظ میں بھی ردوبدل نہیں کرتے اور اس وقت سے لے کر آج تک میرے کالم متواتر شائع کئے جا رہے ہیں میں چیف ایڈیٹر جناب چوہدری عبدالخطیب صاحب اور ان کی پوری ٹیم کو تہ دل سے پنڈی پوسٹ کی گیارھویں سالگرہ پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ پنڈی پوسٹ دن دگنی ترقی کرے اور یہ بھی کہ ہفتہ وار پنڈی پوسٹ ایک روز نامہ کی شکل اختیار کر لے تاکہ یہ اپنے علاقے ملک اور قوم کی مزید خدمت کرسکے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں