205

بھوکے کو مچھلی کھلاؤ نہیں

افطاری کو ابھی تقریباً ایک گھنٹہ باقی تھا جی ٹی روڈ سے لنک روڈ پر کی جانب موڑا ہی تھا کہ بازار سے تھوڑا ہٹ کر سڑک کنارے کھڑے ایک شخص نے لفٹ لینے کے لیے اشارہ کیا تو حسب عادت گاڑی روک لی تو پیچھے سے دوڑتے ہوئے آکر سلام و دعا کے بعد پوچھنے لگا آپ نے کہاں تک جانا ہے میرے بتانے پر اس نے کہا کہ آدھا راستہ میں نے بھی جانا ہے لیکن میرے پاس ایک تھیلہ بھی ہے اس کو ساتھ رکھنا ہے میں نے جی کرتے ہوئے حامی بھری تو وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔میری نظر تھیلے پر پڑی تو وزیر اعلیٰ پنجاب سکیم کے تحت رعایتی قیمت میں ملنے والا آٹا تھا

چندمنٹ کے سفر کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کوئی بات چیت کرنے کا خواہاں ہے اور میری بھی دوران سفر ساتھ بیٹھے ساتھیوں سے محو گفتگو رہنا عادت ہے۔ پہلا سوال میں نے ہی پوچھ لیا کہ بھائی صاحب آپ کا کیا شغل ہے یعنی آپ کیا کرتے ہیں تو وہ ایک لمبی سی آہ بھرتے ہوئے بولے جی میں ڈرائیور ہوں اور فلاں شخص کے پاس اپنی ذمہ داری نبھارہا ہوں چونکہ وہ ایک معروف سیاسی و کاروباری شخصیت ہیں دن بھر ان کو علاقہ میں خوشی وغمی شادی بیاہ اور جنازہ وغیرہ میں شرکت کرنی ہوتی ہے صبح سے رات گئے تک پھر واپسی پر گاڑی انکی رہائش گاہ پر کھڑی کرکے واپس آنا ہوتا ہے آج کل چونکہ رمضان شریف کی وجہ سے شادیوں کا سلسلہ تو بند ہے لیکن صاحب کے بیٹے اور دیگر عزیزواقارب بیرونممالک میں مقیم ہونے کی بناء پر ہرسال رمضان کے دوسرے یا تیسرے عشرہ کے شروع میں زکوٰۃ و صدقات کی ایک اچھی خاصی رقم ان کو بھیج دیتے ہیں اور صاحب خود بھی غرباء ومساکین کا خاص خیال رکھتے ہیں ان کو نقدی اور اشیاء ضروریہ کا پیکج بنا کر گھر گھر پہنچاتے ہیں۔ آج کل میں ان کے ساتھ یہ ذمہ داری بھی نبھا رہا ہوں آج بھی ہم زیادہ آبادیوں میں گئے لوگوں کو سودا سلف پہنچایا جس کی وجہ سے تھک گیا ہوں۔ سکیم کا آٹا کا تھیلے دیکھتے ہوئے

مجھ سے رہا نہ گیا اور پوچھا کہ آپ نے یہ کدھر سے لایا ہے میرے سوال پر پہلے اس نے چپ سادھ لی پھر گویا ہوا صاحب جی میرے خاندان کا نام بے نظیر انکم پروگرام کے تحت مستحقین کی فہرست میں ہے جس کے تحت ایک ماہ کے دوران صرف دو تھیلے ہی رعایتی قیمتوں پر ملتے ہیں لیکن اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک تو لمبی لائن میں کھڑا ہوکر دن بھر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے ایک جانب اسے وقت ضائع ہوتا ہے دوسری طرف لائنوں میں کھڑے ہونے سے عزت نفس بھی مجروح ہوتی ہے اس لیے آج صبح گھر والی کو بول کر آیا تھا کہ وہ شناختی لیکر آٹا اور دو سری اشیاء ضروریہ سٹور سے لے آئیں وہ باقی سامان تو لیکر گھر واپس چلی گئی تھی لیکن تھیلے ایک جاننے والے دکاندار کے پاس رکھ گئی تھی جو میں ابھی لیے جارہا ہوں۔ اس کی حقیقت پسندانہ باتوں میں مجھے اپنائیت نظر آرہی تھی جیسے کہ وہ اپنا کوئی درد بیان کررہا ہے میں نے ساتھ ہی ایک اور سوال کرڈالا کہ بھائی آپ کی تنخواہ کتنی ہے اور صاحب آپ کی بھی رمضان شریف کے حوالے سے کچھ مدد کرتے ہیں تو وہ گویا ہوا کہ تنخواہ ماشاء اللہ ٹھیک ہے بہترین گزارا ہورہا تھا لیکن گزشتہ چند ماہ سے مہنگائی کے طوفان سے گھریلو بجٹ ا نتہائی ڈسٹرب ہوگیا ہے بجلی و گیس کے بلوں میں ہی دو سے تین گنا اضافہ ہوچکا ہے ابھی تو سردیاں گزری ہیں گرمیوں میں تو اور ہی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا

جس کی وجہ سے کافی پریشانی رہتی ہے۔ عید بھی سر پہ ہے اور بچوں نے اگلی کلاسوں میں پروموٹ ہونا ہے خیر بچے تو گاؤں کے سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم ہیں اس لیے وہاں سے کتابیں وغیرہ تو مفت مل جاتی ہیں لیکن کاپیاں یونیفارم اور بستے وغیرہ خریدنے پڑتے ہیں میرے صاحب تو تنخواہ کے علاوہ کچھ مدد وغیرہ نہیں کرتے جی۔ غریب گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے میں غریب کے دکھ و درد کو خوب جان سکتا ہوں بے شک صاحب جن کی گھر گھر جاکر عملی مدد کررہے ہیں وہ غریب و مستحق ہیں نیت کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ سب کچھ سیاسی ساکھ وناموری کے لیے کررہے ہیں یا اللہ کی رضا کی خاطر۔ لیکن ان کو میرے جیسے اپنے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں کا بھی سب پہلے خیال رکھنا چاہیے دوسرا یہ بھی ہے کہ چونکہ میں گزشتہ دس سال سے ان کے ساتھ ہوں اور ہرسال رمضان شریف میں انکی روٹین بنی ہوئی ہے کہ راشن اور نقدی دینے سلسلہ شروع کردیتے ہیں

جس کی وجہ سے رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی ان لوگوں کی جانب سے ہمارا خیال رکھنے کے پیغامات آنا شروع ہوجاتے ہیں۔مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہنا لگا یہ مجھے انتہائی معیوب اور غیر مہذب طریقہ لگتا ہے لوگوں کو مانگنے کا عادی بنانا غیر مناسب ہے اگر جمع شدہ رقم سے ہر سال آٹھ سے دس بندوں کو کاروبار شروع کرنے میں مدد دی جائے تو وہ بھی معاشرہ کے باعزت شہری بننے کے ساتھ کچھ عرصہ بعد لینے والوں کی بجائے دینے والوں کی فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں چونکہ جب معاشرے کا پسا ہوا طبقہ یا غریب جب اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہوگا تو لامحالہ وہ بھی دوسروں کا بھی خیال رکھنے والا اورخیر خواہ ہوگاابھی یہ باتیں جاری ہی تھیں میں بھی پوری طرح محو ہوچکا تھا کہ اچانک بولا بھائی گاڑی روکیں میرا سٹاپ آگیا وہ دعائیں دیتے ہوئے اتر گیا لیکن اس کی باتیں میرے دل و دماغ پر بڑا اثر چھوڑ گئیں مجھے وہ چینی کہاوت یاد آگئی بھوکے کو مچھلی کھلاؤ نہیں اس سے مچھلی پکڑنا سکھاؤ۔ بے شک وطن عزیز میں ہر برس رمضان شریف میں نہ صرف حکومت کی جانب سے اربوں کے ریلیف پیکج دئیے جاتے ہیں بلکہ ہمارے بیرون ممالک مقیم ہمارے خیر خواہ دیار غیر سے کروڑوں روپے کی رقم زکوٰۃ و خیرات کی مد میں پاکستان میں غرباء و مساکین کے لیے بھیجتے ہیں اگر اس کو مذکورہ کہاوت کے مدنظر رکھتے ہوئے استعمال کیا جائے انڈسٹریاں لگائی اور چھوٹی سطح پر ان لوگوں کو کاروبار کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں تو غربت کے خاتمے کے لیے ایک موثر قدم ثابت ہوسکتا ہے چونکہ یہ بات سوفیصد حقیقت پر مبنی ہے آپ بھکاری کی جتنی چاہیں مالی مدد کردیں دوسرے دن دوبارہ پھر اس نے اسی روٹین میں چلے آنا ہے اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے بھکاری امیر تو ہوسکتا ہے لیکن اپنے کام کو ترک نہیں کرسکتا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں