159

لونی جسیال المناک حادثے کی کہانی

ثاقب شبیر شانی ، رات گئے دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا فون کی گھنٹی بجی فون ا±ٹھایا تو دوسری جانب موجود صاحب نے آگاہ کیا کہ کلر سیداں کی نواحی آبادی میں گیس لیکج کے باعث دھماکہ ہوا ہے جس میں ایک مرد خواتین بچوں سمیت آٹھ افراد آگ کی زد میں آکر جھلس گئے ہیں زخمیوں کو تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے، حادثے کی اطلاع ملتے ہی میں ہسپتال کی جانب روانہ ہوا، ریسکیو بلڈنگ کے باہر سڑک پر فائر ٹینڈر اور ایمبولینس ایک جانب قطار میں کھڑی تھیں اور ان کی ہنگامی بتیاں جل بجھ رہی تھیں مجھے حادثہ کی شدت محسوس ہونا شروع ہوگئی چند ہی قدموں کا فاصلے طے کر کے ہسپتال کے سامنے پہنچا موٹر سائیکل ہسپتال کی جانب موڑدی پارکنگ ایریا میں پہنچتے ہی سامنے کا منظر دکھائی دینے لگا، ایمر جنسی کے باہرریسکیو کی ایمبولینس کھڑی تھی بہت سے ریسکیو ورکر نظر آرہے تھے کوئی بھاگتا ہوا ہسپتال کے اندر جاتا کوئی باہر آتا شاید زخمیوں کو ابھی ابھی ہسپتال پہنچایا گیا تھا اور انہیں طبعی امداد کے لئے ایمرجنسی میں منتقل کیا جا رہا تھا، موٹر سائیکل کھڑی کر کے میں بھی ایمرجنسی کے سامنے پہنچ گیا ایمر جنسی کے باہر اور اندر بہت سے لوگ یہاں وہاں کھڑے تھے کچھ مرد وخواتین چہ مگوئیاں کر رہے تھے، اسی اثناء میں ایک ریسکیو اہلکار میرے پاس آیا بتانے لگا کہ حادثہ بہت شدید نوعیت کا تھا گیس لیکج کے باعث پیش آیاآٹھ افراد زخمی ہیں کچھ کی حالت تشویشناک ہے، موقع کی فوٹیج ہے میں نے اہلکار سے پوچھا ، نہیں حادثہ اسقدر شدید تھا کہ اس کا موقع نہیں ملا اہلکار نے جواب دیا۔ مجموعی صورتحال کا اندازہ مجھے ہو چکا تھا مزید تفصیلات جاننے کی غرض سے ایمرجنسی میں داخل ہوا ایک جانب ایمرجنسی میں بیٹھنے والے ڈاکٹروں کا کمرہ ہے اس کے مقابل کمرے میں مریض موجود تھے اس کمرے کا دروازہ بند تھا مگر ان کی آہ وبکا باہر تک سنائی دے رہی تھی آوازوں پر غور کیا تو مردو زن کے چیخنے درد سے کراہنے کے ساتھ ایک کم عمر بچے کے پھوٹ پھوٹ کر رونے کی آوازیں طبعی و ریسکیو عملہ کی آوازوں میں گڈ مڈ ہو رہی تھیں شیشے کے دھندلے دروازے سے جھانکا سفید سبز وردیوں کے ساتھ ایک مرد کے ننگے بدن کا ہیولا سا نظر آیا دروازہ کھلا شاید کسی کو باہر آنا تھا کسی نے اندر جانے کی کوشش کی مگر دروازے پر معمور شخص نے روک دیا، دوسری جانب ڈاکٹروں کے کمرے کی طرف لپکا کہ کچھ معلومات مل جائیں یہاں بھی صورتحال گھمبیر تھی کھڑکی کے شیشے سے نظر آرہا تھا کچھ ڈاکٹر ریسکیو اور پولیس اہلکار سر جوڑے کاغذی کاروائی میں مصروف تھے، اسی اثناء میں ایک ریسکیو اہلکار فہرست تھامے ایمرجنسی سے برآمد ہوا فہرست پر متاثرین کے کوائف درج تھے کوائف حاصل کئے اور رپورٹ کرنے کے لئے ٹیکرز لکھنے لگا ایمرجنسی سے باہر آہی رہا تھا کہ تیزی سے اندر آتے ایک اہلکار نے پیچھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا یہ اہلکار ایمرجنسی روم میں داخل ہوا میں بھی اس کے پیچھے کمرے میں داخل ہو گیا، جونہی کمرے میں پہنچا ادھ جلی زندگیوں کے سسکنے کا منظر دل دہلا رہا تھا ، انسانی جسم کے جلنے کی تیز بو نتھنوں سے ہوتی حلق میں محسوس ہو رہی تھی درد واذیت سے کراہتے انسانوں کی سسکیاں آہیں بدحواس کئے جا رہی تھیں کہ میری نظر بری طرح سے جلے ہوئے بچے پر جا رکی پیٹھ کے بل بیڈ پر پڑا یہ بچہ دونوں بازو اور ٹانگیں فضا میں اٹھا کر معلوم نہیں چیختا تھا یا رو رہا تھا یہ چند لمحے شاید قیامت کے تھے میں ان کی تاب نہ لا سکا آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی سو الٹے پاوں واپس لوٹ آیا ، مگر قیامت خیز لمحے شب بھر آنکھوں کے سامنے گھومتے رہے، اگلے دن صحافی دوستوں کے ساتھ ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ مبینہ طور پر یہ حادثہ گھر کے باہر سے گزرنے والی مین لائن میں لیکج کے باعث پیش آیا اور اس خرابی کو دور کرنے کی درخواست کی گئی تھی، میں تاسف سے ہاتھ ملنے لگا کہ کاش اس علاقے کو گیس کی سہولت دینے والے ہنستے بستے گھروں کو آتش کدوں میں تبدیل کرنے والے حادثات کی روک تھام کے لئے ایک دفتر اور کچھ اہلکار بھی دے دیتے تو شاید اس وقت جلتے جسموں والوں کی سسکیاں میری سماعتوں کا پیچھا نہ کر رہی ہوتیں، تادم تحریر متاثرین میں سے دو افراد وقاص اور اس کا بیٹا سپردخاک کئے جا چکے اللہ پاک دیگر کو شفایاب کرے۔ المناک حادثے کی منظر کشی کا مقصد قلم کی شہسواری دکھانا نہیں بلکہ اس لئے ضروری سمجھا کہ شاید ان کی تکالیف کو ارباب اختیار بھی محسوس کریں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں