242

رقیہ اکبرکالم نگار و شاعرہ

تونسہ شریف حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمانؓ کی وجہ سے اپنی ایک خاص پہچان رکھتا ہے۔اس شہر میں تعلیم قریب قریب نوے فیصد ہے اسی لئے اسے یونان صغیر بھی کہتے ہیں۔آج ہم ادبی شخصیت رقیہ اکبر سے گفتگو کریں گے جو اسی شہر میں 8 ستمبر 1972 کو پیدا ہوئیں۔آپ نیابتدائی تعلیم تونسہ شریف سے حاصل کی۔ ڈی جی خان ڈگری کالج سے گریجویشن کیا اور ماسٹرز اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے کیا ہے لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنسز میں آپ 2015 سے لاہور میں قیام پذیر ہیں۔ انٹرویو کے آغاز میں انھوں نے بتایا کہ ایک بیٹی اور بیٹا ہیں میرے شوہر نیشنل بینک میں اے وی پی ہیں۔ ابتداء میں بچوں کی کہانیاں لکھیں جب میں چھٹی کلاس کی طالبہ تھی۔بچوں کے رسالے باغ اور بعد میں پیغام ڈائجسٹ میں۔ پھر طالب علموں کے رسالے ”ماہنامہ ہمقدم ” میں سوشل اور کرنٹ اشوز پر مضامین لکھنا شروع کر دیئے۔

ساتھ ہی مقامی اخبار میں کالم لکھنے لگی۔کچھ عرصے بعد نوائے وقت ملتان کیلئے کالم نویسی شروع کر دی۔ اس کے ساتھساتھ ماہنامہ تکبیر، ایشیاء،زندگی اور پکار میں بھی کالم لکھتی رہی۔پکار میں غالبا چھ سات سال مستقل کالم لکھا بعنوان ” نکتہ داں کے قلم سے”روزنامہ سماء پہ بھی لکھا اسی طرح مختلف میگزینز میں بھی گاہے گاہے لکھتی رہی۔سوشل میڈیا پہ آنے کے بعد برقی ویب گاہ دانش پی کے،دلیل، بادبان اور ایک اور ویب سائٹ پہ بھی لکھا جس کا نام اس وقت ذہن میں نہیں آ رہا۔ مختلف موضوعات پہ لکھتی رہی ہوں عموما سوشل اشوز اور بالخصوص خواتین کے حوالے سے۔ شاعری سے ہمیشہ سے شغف رہا ہے میرے نانا ابا مرحوم مجھے پاس بٹھا کر معروف شعراء کا کلام سنتے اور سناتے تھے۔پہلی نظم غالباً میٹرک میں لکھی تھی۔ پہلے تو سرائیکی میں نہیں لکھتی تھی لیکن اب سرائیکی زبان میں بھی شاعری کرتی ہوں

۔ شروع شروع میں تو شاعری کی اصلاح آپا سعدیہ حریم صاحبہ سے لی پھر میرے استاد محترم ظہیر بدر صاحب نے بہت رہنمائی کی۔ نظم کا کینوس غزل سے بہت زیادہ وسیع ہے اور دور جدید میں نظم غزل سے بہت آگے ہے۔ بہت سی شخصیات ہیں جن کے کام سے میں بیحد متاثر ہوں کسی ایک کا نام نہیں لیا جا سکتا۔ لاہور ادبی سرگرمیوں میں الحمدللہ بہت آگے ہے۔مشاعرے تو یہاں سمجھیں ہر روز ہی کہیں نا کہیں کسی نا کسی ادبی تنظیم کی زیر سرپرستی ہو ہی رہے ہوتے ہیں۔ میں مشاعروں کی شاعرہ نہیں ہوں اس لئے بہت ہی کم جاتی ہوں مشاعروں میں۔ویسے لاہور کے ماشاء اللہ کئی ایک معتبر شعراء کیساتھ کلام پڑھنے کا موقع ملا ہے

مجھے۔سعود عثمانی صاحب کی حرفِ کار،سیوا آرٹ سوسائٹی کے زیر اہتمام،بزم چغتائی، نخل سخن، بزم لاہور کے زیر انتظام اور بھی کئی ایک ادبی تنظیمیں ہیں جن کی زیرنگرانی مشاعروں میں شرکت کا موقع ملا ہے مجھے الحمدللہ۔عورت اور مرد دونوں برابر کے انسان ہیں اور حقوق،آزادی سب کیلئے یکساں ہیں یکساں ہی ہونے چاہئیں۔ سائنسی علوم ہوں یا سوشل سائنسز میرے خیال سے دونوں ہی کی اہمیت ہے اور مرد عورت دونوں کیلئے۔ یاد کی پٹاری میں ایسے بہت سے واقعات ہیں جنہیں دوسروں کے ساتھ شیئر کیا جا سکتا ہے

مگر معلوم نہیں یہ ان کیلئے دلچسپ ہوں گے یا نہیں۔ جس طرح تھوک کے حساب سے ہمارے لکھاری کتابیں مارکیٹ میں پھینک رہے ہیں اس سے کتاب کی قدر کم ہو رہی ہے۔میرا ماننا ہے جیسے ذہن میں آنے والا ہر خیال لکھنے کے قابل نہیں ہوتا ایسے ہر لکھا ہوا اس قابل نہیں ہوتا کہ اسے کتابی شکل دی جائے۔میں پیشے کے لحاظ سے ایک لائبریرین ہوں اس لئے کتاب کی اہمیت اور قدر پہ کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتی۔ تخلیق کار کیلئے تو اس کی تخلیق اولاد کی طرح ہوتی ہے اور اولاد تو ساری کی ساری ہی انسان کو یکساں پیاری لگتی ہے اس لئے مجھے بھی اپنا کلام سارا ہی بہت پسند ہے۔پھر بھی قارئین کی دلچسپی کیلئے کچھ منتخب اشعار پیش کرتی ہوں۔

تیرا خیال بہت دیر تک نہیں رہتا
یہ اتصال بہت دیر تک نہیں رہتا
رہے عروج! ہمیشہ رہے! نہیں ممکن
کبھی زوال بہت دیر تک نہیں رہتا
میں زود رنج ہوں لیکن میرے حبیب مجھے
کوئی ملال بہت دیر تک نہیں رہتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے مسلسل تیری خماری نہیں رہے گی
کہا نہیں تھا یہ بے قراری نہیں رہے گی
کہا نہیں تھا کہ مجھ کو اپنا اسیر کر لو
ہمیشہ مجھ کو طلب تمہاری نہیں رہے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلک شگاف مکان ہیں ہر سو
گلیاں اور چوبارے گم
اب نہ وہ دالان نہ آنگن
ہو گئے چاند اور تارے گم
کانچ کے رشتے چنتے چنتے
کر بیٹھی ہوں پیارے گم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون سمجھے گا پیار ویار کا دکھ
سب کو لاحق ہے روزگار کا دکھ
ہم تو مارے گئے محبت میں
ہم پہ بیتا ہے اعتبار کا دکھ

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں