114

درویش شخصیت ،راجہ امیر افضل

؎اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر دو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
آج اچانک ظہر کی نمازکے بعد راجہ امیر افضل یاد آئے اور یادوں کے دریچے کھلتے چلے گئے۔ ایک جانب میں اور دوسری جانب گلدستے میں سجا ہوا یہ درویش انسان میرے چاروں طرف سردیوں کی آہستہ بارش کی مانند رم جم کرتا ہوا دکھائی دیا۔ جب بھی گھر والوں کی بات کرتے تو سونو۔ اور ں لال کو گود میں اٹھا کر محو گفتگو ہوتے۔ یہ شخص دیکھنے میں ایک آدمی مگر سوچنے میں اور کردار کے حوالے سے اللہ کے بندوں سے بے پناہ محبت و انس اپنے دل میں لیے باہر سے خاموش اور اندر سے خلق خدا کیلئے جذبات یوں نچھاور کر رہا ہوتا تھا کہ جیسے سب لوگ اس کے قریبی رشتے دار ہوں۔ ایک دفعہ ہوا یوں کہ پوٹھوہار کے معروف قصبے ساگری میں ایک ہمارا قریبی رشتے دار فوت ہوگیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو یہ شخص جو میرے بزرگوں کا درجہ رکھتا تھا مجھے دیکھ کر فوراً اپنی کرسی سے اٹھ گیا اور مجھے گلے لگا لیا۔ میں بہت شرمندہ ہوا اور سر نیچے کرکے کہا آپ مجھ سے بڑے ہیں آپ کیوں میرے لیے کھڑے ہو گئے تو ان کے جواب نے مجھے ساری رات سونے نہ دیا۔ انکا جواب یہ تھا ” شاہد بیٹا لکھاری اپنے لہو لہان قلم سے بہت کچھ لکھ کر یہ دنیا چھوڑ جاتا ہے مگر اس کے لکھے ہوئے الفاظ جب کسی کاغذ پر منتقل ہو جاتے ہیں تو وہ قیامت تک روشن ستاروں کی طرح چمک رہے ہوتے ہیں اور وہ الفاظ دل ودماغ میں پہلے ایک بیج پھر ایک کونپل اور آخر میں ایک تناور درخت بن کر انسانوں حیوانوں اور چرند پرند حتیٰ کہ چیونٹیوں کو بھی محفوظ رکھتا ہے۔ لہذا آپ وہی درخت ہیں جو مر کر بھی دوسروں کو محفوظ رکھے گا اور دوسری بات یہ کہ آپ کی ہر تحریر میں ایسے واقعات اور ایسے اسباق ہوتے ہیں کہ میں ساٹھ برس گزار کر بھی آپ کی تحریروں سے بہت کچھ سیکھ رہا ہوں ” انکے ان چند جملوں نے میرے اندر لاکھوں الفاظ پر مشتمل ایک مضمون برپا کر دیا۔ در اصل میری تحریروں نے مجھے اتنا سبق نہیں دیا جتنا اس پیارے انسان کے چند لفظوں نے مجھے سنوار دیا۔ امیر افضل جب بھی ملے یوں ملے کہ جیسے ابھی ابھی کوئی خوشی سمیٹ کر آئے ہوں۔ مگر ہم لکھنے والے بھی بہت عجیب ہوتے ہیں انسان کی چال ڈھال سے اسکے اٹھنے بیٹھنے سے اس کے اندر کا حال زیادہ نہیں کچھ کچھ جان لیتے ہیں۔ یہ شخص اندر سے پریشان اور باہر سے ہر وقت مطمئن ترین دکھائی دیتا تھا اور یہی اللہ کی ذات پر مکمل اعتماد اور یقین رکھنے والے اللہ کے نیک بندے کی بہترین نشانی ہوا کرتی ہے۔ یہ شخص گھر سے باہر جاکر رو لیتا تھا مگر گھر والوں کے سامنے ہشاش بشاش نظر آتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ جو مرض اسے لاحق ہے وہ کسی بھی لمحے یہ فانی دنیا چھوڑنے پر مجبور کر دے گی۔ یاد رکھیں ہم سب کو پورا یقین ہے کہ ہم نے کسی بھی وقت یہ عارضی دنیا چھوڑ جانی ہے مگر یہ بات تو طے ہے کہ گھر والوں کی جدائی کا سوچ کر دل ریزہ ریزہ ہوتا جاتا ہے۔ اس شخص نے اپنی ساری زندگی سر اٹھا کر گزاری۔ وہ اس لیے کہ یہ شخص کردار کا غازی اور بے داغ ماضی کا مالک تھا۔ یہ بندہ چلتا پھرتا اور مسرتوں والی چھاؤں بکھیرتا رہا۔ جو شخص دوسروں کیلئے چھاؤں مہیا کرے وہ جنت میں ہی پایا جانے گا انشاء اللہ۔ جب میری تیسری نثر کی کتاب پبلش ہوئی تو ان دنوں وہ بیمار تھے۔ مجھ سے چونکہ بہت پیار کرتے تھے لہذا راولپنڈی آرٹس کونسل کے ہال میں اس خوبصورت انسان کی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔ ریڈیو‘ ٹی وی پر نمودار ہونے والے کالم نگار اور میزبانوں کی خوبصورت لڑی میری کتاب کی تقریب میں شریک تھی مگر راجہ امیر افضل کے بغیر سب کچھ ادھورا لگ رہا تھا۔ پہلی بار اچانک جب انہیں معلوم ہوا کہ میں لکھاری اور مصنف ہوں تو اسکے بعد میرے ہر کالم اور ہر تحریر پر انتہائی مہذب انداز میں بحث کرتے اور میری رہنمائی فرماتے۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا سلجھا ہوا انسان نہیں دیکھا۔ دوسروں کی خوشی میں خوش ہونے والے اس انسان نے حسد کو اپنے قریب تک نہ آنے دیا۔ روزنامہ نوائے وقت میں جب لکھتا تھا تو نوائے وقت ہی پڑھتے رہے۔ جب میں نے روزنامہ اوصاف میں لکھنا شروع کیا تو محبت کرنے والے راجہ نے اوصاف کا مطالعہ شروع کر دیا۔ مجھے اکثر کہا کرتے تھے کہ آپکے کالم اپناایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ در اصل امیر افضل ایک چلتی پھرتی کتاب کا نام تھا لیکن افسوس کہ بہت سے لوگوں کو انکے اوصاف کا معلوم ہی نہ تھا۔ اب جب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو یہ لوگ اس عظیم انسان کو کونوں کھدروں میں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ اب انکو کون بتائے کہ جانے والے بھی کبھی واپس آئے ہیں۔ راجہ امیر افضل جس جگہ بیٹھتے ماحول کو اپنی خوبصورت گفتگو کے بند کمرے میں قید کر لیتے۔ انکی باتوں اور مسکراہٹ میں عجیب سا جادو تھا جو پہلی ہی ملاقات میں ان سے ملنے والوں کو اپنے حصار میں لے لیتا تھا اور پھر انسان تربیت کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کر دیتا۔ اس مرد قلندر کی چال میں اسکے اٹھنے بیٹھنے اور اسکے کردار میں انس و محبت اور عقیدت میں گوندھے ہوئے جذبات رقص کیا کرتے تھے۔ اللہ کے بندوں سے پیار کرنے والے اس اللہ کے بندے نے اپنی حرکات و سکنات سے اپنے خاندان، برادری اور عزیز واقارب کو تربیت اور ترتیب کا سلیقہ اور قرینہ عطا کیا۔ راجہ امیر اٍفضل زندہ رہا تو روشنی کامینار بن کر جب چل دیا تو ان مٹ نقوش ہمارے ارد گرد پیوست کر گیا۔ ہارٹ سرجری کے لیے جب گھر سے جانے لگے تو اتنے پر سکون کہ جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ راجہ امیر افضل ہمیں کیا معلوم تھا کہ وہ دن اس گھر میں آپکی زندگی کا آخری دن تھا۔ اس روز آپ نے اپنے گھر کی دہلیز ایسے پار کی کہ پھر واپس نہ آ سکے۔ آج تمام گھر والے آپکے بغیر افسردہ ہیں کہ آپکی زندگی ایک چھتری تھی جو اب نہ رہی۔
کسی کے یوں بچھڑنے پر
کسی کے یاد آنے پر
بہت سے لوگ روتے ہیں
کہ رونا اک روائیت ہے
محبت کی علامت ہے
میں ان پر پیچ راہوں پر
غم جاناں سے گھبرا کر
روایت توڑ جاتا ہوں
تمہاری یاد آنے پر
میں اکثر مسکراتا ہوں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں