156

درانتی سے گندم کی فصل کی کٹائی کا رواج آج بھی قائم ہے

ہر سال انگریزی مہینہ کی 13 اپریل کو بیساکھ شروع ہو جاتا ہے اسے بیساکھی کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے بیساکھ کی شروعات سے گندم کی کٹائی کا مرحلہ بھی شروع جاتا ہے ویسے تو یہ مہینہ موسم بہارکی آمد اورگندم کی کٹائی کیساتھ مخصوص ہے تاہم بیساکھی کا تہوار سکھ مذہب میں ایک منفرد پہچان اوراہمیت کا حامل ہے کیونکہ 13اپریل 1699 کو سکھ مذہب کے دسویں گرو،گرو گوبند سنگھ نے خالصہ پنت کی بنیاد رکھی تھی سکھوں کا یہ مخصوص تہوار ہرسال بھارتی شہر ملیر کوٹلہ میں منایا جاتا ہے،

چونکہ اپریل کی 13 تاریخ کے بعد پنجاب کے دیگر علاقوں کی طرح خطہ پوٹھوہار میں بھی گندم کی کٹائی کا عمل شروع ہو جاتا ہے اسلیے ہمارے ہاں بیساکھی موسم بہار کی آمد اور گندم کی کٹائی کا آغاز تصور کیاجاتا ہے اب خطہ پوٹھوہار میں گندم کی فصل پک چکی ہے اور بعض علاقوں میں کٹائی کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے مگر وقفے وقفے سے گندم کی فصل کے کاشت کے علاقوں میں بارش کے سبب گندم کی کٹائی کا عمل روک دیا گیا ہےجدید زرعی آلات کی ایجاد سے گندم کی فصل کو ٹھکانے لگانے کے حوالے سے اسکے طریقہ کار میں پرانے وقتوں کی نسبت اب کافی حد تک تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں

پرانے وقتوں میں زمین کی تیاری میں بیلوں کے زریعے ہل چلایا جاتا تھا اور سنگل پھالے کے زریعے پورے اندرونی کھیت کا چکر لگا کر کسان کھیتوں کو تیار کیا کرتے تھے یہ عمل کافی مشقت طلب تھا کھیت کی تیاری میں کہیں دن لگ جاتے تھے مگر اب ٹریکٹر سے یہ کام کم وقت میں مکمل ہو جاتا ہے تاہم اس پر اٹھنے والے اخراجات کہیں زیادہ ہیں کیونکہ ڈیزل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں

پہلے وقتوں میں گندم کی کٹائی درانتی سے کیجاتی تھی پہلے دور میں مردوں کے شانہ بشانہ عورتیں بھی گندم کی کٹائی میں برابر حصہ لیتی تھیں جبکہ خاندان کی کچھ عورتوں کو گندم کی کٹائی میں مصروف افراد کیلیے کھانا پکانے کی ذمہ داری سونپی جاتی تھی گندم کی کٹائی کے دوران جو سٹے زمین پر گر جاتے انہیں باقاعدہ چن چن کر اگھٹا کیا جاتا تھا تاکہ غلہ ضائع نہ ہو مگر موجودہ دور میں ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا

جو کسان کٹائی میں پیچھے رہ جاتا گاؤں کے مکین اور دیگر رشتہ سب مل کر فصل کی کٹائی میں اسکا ہاتھ بٹاتے اور پیھچے رہ جانے والے کسان کو اپنے برابر شریک کر لیتے تھے گندم کی کٹائی کے دوران تمام گاؤں ایک خاندان کی صورت میں نظر آتا گندم کی کٹائی کے موقعہ پر چھوٹے بچے بھی بڑوں سے پیچھے نہ رہتے

کھیتوں میں فصل کاٹنے والے بڑوں کو چائے پانی وغیرہ پلانے کے فرائض نبھاتے نظر آتے خاص کر گندم کی گہائی کے دوران سکول کے ماسٹر صاحب سے خاص طور پر سفارش ڈال کر چھٹی طلب کیجاتی تھی بزرگ گندم کی فصل پکنے کی علامات کا خصوصی تجربہ رکھتے تھے فصل کی کٹائی اور گہائی کے موزوں وقت کے بارے میں بزرگوں کو بخوبی علم تھا وقت سے قبل ہرگز فصل کی کٹائی نہیں کرتے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ قبل از وقت کٹائی کی صورت میں دانے سکڑ جاتے ہیں

جبکہ کٹائی میں غیر ضروری تاخیر سے دانے کھیت میں جھڑ جانے کا اندیشہ بھی موجود رہتا ہے لہذا ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کسان موزوں موسمی حالات میں کٹائی اور گہائی کا عمل مکمل کرتے تاکہ تیار گندم کی فصل سمیٹ لی جائے کٹائی سے قبل درانتیوں کو تیز کرا لیتے کیونکہ فصل کی کٹائی شروع ہونے پر لوہار کے ہاں رش بھی بڑھ جاتا تھا

کسان فصل سمیٹنے اور گندم زخیرہ کرنے کیلیے ترپال اور نئی بوریوں کا بندوبست پہلے ہی کر لیتے تھے بارش ہونے کی صورت میں کٹائی روک دی جاتی تھی موجودہ دور میں گندم کی کٹائی کے لیے جدید مشینری کا استعمال عام ہے جس سے فصل کو سمیٹنے میں کم وقت لگتا ہےمگر روایتی انداز میں درانتی سے گندم کی فصل کی کٹائی کا رواج آج بھی قائم ہے بعض گھرانے آج بھی درانتی کے زریعے فصل کاٹتے ہیں گزرتے وقت کیساتھ اب گندم کی کٹائی کے روایتی طریقوں کی جگہ جدید مشینری نے لے لی ہے

پرانی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں تندور کی روٹی لسی دیسی گھی اور سوجھی کے حلوے کی سوغات کا رواج بھی اب تقریباً ختم ہوچکا ہے گندم کی کٹائی کے موسم میں گاؤں کے مکینوں کے دلوں میں جو ایک دوسرے کی ہمدرد اور حسین یادوں کا احساس تھا اب وہ جذبات ماضی کی پرسکون اور دلکش راہوں میں کہیں کھو گئے ہیں وہ وقت بیت گیا ہے مگر وہ سنہرا دور اب بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے جو ہماری دیہی ثقافت کا ایک لازمی حصہ ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں