134

حسَّان العصر حافظ مظہر الدین مظہر ؒ

حضور سرورِ عالمﷺ کی مدح سرائی کیلئے جنکا انتخاب رب نے خود فرمایا وہ شاعرِ دربارِ رسالت حضرت حسان بن ثابت کہلائے۔انہی کے فیض کا یہ سلسلہ چلتا چلتا کہیں رومی کہیں جامی تو کہیں سعدی کے پاس پہنچتا ہے۔پھر یہ فیض برِ صغیر پاک و ہند میں بھی تقسیم ہوتا دکھائی دیتا ہے جن میں ہمیں سرِ فہرست اعلی ٰ حضرت تاجدارِ بریلی کی ذات والا صفات نمایاں نظر آتی ہے۔اچانک بھارت کے ایک شہر رمداس سے وہی شاعرِ دربارِ رسالت کا فیض لیئے ایک ستارہ نمودار ہوتا ہے جو یہ صدا لگتا سنائی دیتا ہے
رومی و جامی و سعدی ہی پے موقوف نہیں
انکے مداحوں میں مظہر کا بھی نام آتا ہے
میری مراد وہ شخصیت ہیں کہ جنہیں زمانے نے حسانُ العصر کے لقب سے یاد فرمایاحافظ مظہرالدین مظہر1332 ھ 1914کو ستکوہا ضلع گرداس پور میں پیدا ہوئے۔آپکا آبائی وطن رمداس تحصیل رجنالہ ضلع امرتسر تھا۔آپ کے والدِ گرامی حضرت مولانا نواب الدین چشتی عظیم شیخ اور مناظرِ اسلام تھے۔حافظ صاحب کے نزدیک جس شخصیت نے انہیں حافظ بنایا وہ ان کے والدِ گرامی تھے۔آپ نے ابتدائی تعلیم و تربیت امیر مینائی کے شاگرد صوفی عبد الرزاق رامپوری سے حاصل کی۔آپ نے 8/9 سال کی عمر میں سلمیٰ نامی خاتون سے قرآن پاک حفظ کیا۔

اس کے بعد پیر سید جماعت علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ سے کچھ عرصہ دینی تعلیم حاصل کی۔حضرت سید ابوالبرکات حزب الاحناف سے بھی کچھ علوم پڑھے حافظ مظہر الدین شکل و صورت کے اعتبار سے نہایت خوبصورت تھے۔سرخ و سفید رنگ اور درمیانہ قد تھے۔تقسیم سے پہلے بہت رئیس تھے تیراکی اور گھڑ سواری انکا خاص مشغلہ تھا۔بہت شاہانہ مزاج کے مالک تھے لیکن تربیت چونکہ دینی، مذہبی اور ادبی ماحول میں ہوئی تھی اس لیئے یہ سب کبھی ان پر حاوی نہیں ہوا تھا آپ نے بہت کم عمری میں ہی شعر کہنا شروع کر دیئے تھے۔حافظ صاحب نے اپنی شاعری کا آغاز غزل گوئی سے کیا۔آپ کا مجموعہ نور و نار کے عنوان سے 1947 ء میں تیار ہوا لیکن آپ کے والدِ گرامی کے انتقال اور تقسیمِ ہند کی ہنگامی صورتحال کے باعث اس وقت شائع نہ ہوسکا۔

تقسیمِ پاکستان کے بعد حافظ صاحب کے دینی و دنیوی حالات تبدیل ہو گئے۔آپ کی زمینوں پہ انگریزوں نے قبضہ کرلیا۔آپ کا بیٹا محمود آفتاب اور بلقیس نامی بہن بھی 1947ء کی جنگ میں شہید ہوئے۔ان حالات نے آپکو مغموم کر دیا۔اسی دوران آپ نے ملی نغموں کے دو مجموعے شمشیر و سناں 1950ء اور حرب و ضرب 1955ء کے نام سے لکھ ڈالے۔”میرے وطن تیری جنت میں آؤں گا اِک دن“یہ شہرہ آفاق نغمہ بھی آپ کا ہی ہے جو بہت عرصہ کشمیر کا ملی ترانہ بھی رہا۔ان دنوں آپ تعمیر اخبار میں سیرت و کردار کے نام سے اور کوہستان اخبار میں نشانِ راہ کے نام سے کالم لکھتے رہے

لیکن آپ کے معاشی حالات بہت زیادہ بہتر نہ ہوئے۔اسکے بعد حافظ صاحب نے اپنا سارا رجحان نعت گوئی کی طرف منتقل کر لیا اور یوں کہوں تو بے جا نا ہوگا کہ آپ نے اپنی غزل کو وضو کروا لیا اور ایسی ایسی نعتیں لکھ ڈالیں جو عاشقانِ مصطفی کے دلوں پر نقش ہیں۔حافظ صاحب کا پہلا نعتیہ مجموعہ تجلیات کے نام سے 1969 ء شائع ہوا دوسرا نعتیہ مجموعہ میزاب 1982 ء میں ا انکی وفات کے بعد جناب حفیظ تائب نے مرتب اور شائع کیا۔حافظ صاحب کے کالم بھی نشانِ راہ جلدِ اول دوم اور سوم کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں آپ کی ایک اور کتاب وادیء نیلم کے نام سے شائع ہوئی شاعری میں آپکی مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے

کہ شاعرِ ہفت زباں سید نصیر الدین نصیر علیہ الرحمہ کا شمار آپ کے تلامذہ میں ہوتا ہے۔حفیظ جالندھری جیسی گراں قدر شخصیت آپ کو کو داد دیتی نظر آتی ہے۔صیاء الامت پیر کرم شاہ الازہری ؒ نے بھی حافظ صاحب کی مدح میں ایک پورا مضمون تحریر فرمایا۔خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ جو اشعار کثرت سے پڑھا کرتے تھے وہ اِنہی کے تھے۔
ہم سوئے حشر چلیں گے شہِ ابرار کیساتھ
قافلہ ہوگا رواں قافلہ سالار کیساتھ
یہ تو طیبہ کی محبت کا اثر ہے ورنہ
کون روتا ہے لپٹ کر در و دیوار کیساتھ
ہم بھی مظہر سے سنیں گے کوء نعتِ رنگیں
گر ملاقات ہوئی شاعرِ دربار کیساتھ
حافظ صاحب کا فیضانِ شاعری آگے انکے صاحبزادے جناب اویس مظہر صاحبؒ اور انکی صاحبزادیوں کو بھی نصیب ہوا۔

حافظ صاحب راقم الحروف کے دادا جان علامہ عطاء المصطفیٰ جمیل صاحب کے سگے ماموں جان تھے دادا جی بتایا کرتے ہیں کہ حافظ صاحب کی رہائش راولپنڈی بنی چوک کے قریب ہوا کرتی تھی تو میں جب بھی ماموں جی کے پاس جاتا آپ نے نئی نعت لکھی ہوتی تو آپکو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا کہ آپ تازہ تازہ روئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آپکے کلام میں اتنی تاثیر ہے کہ جو شخص بھی توجہ سے آپ کا کلام پڑھے یا سنے تو اسکی آنکھیں عشقِ مصطفی کریم میں نم ہو جایا کرتی ہیں آپ لکھتے ہیں۔
نبی کی نعت جو قرطاس پر رقم کی ہے
تو پہلے ہم نے محبت میں آنکھ نم کی ہے
حافظ صاحب کو مدینہ شریف سے ایک خاص لگاؤ تھا یہی وجہ ہے کہ آپکے ہر کلام میں مدینہ شریف کا ذکر ضرور ملتا ہے
تیری مٹی وہیں کی ہے مظہر
تجھ سے آتی ہے بو مدینے کی
آپ سرکارِ دوعالم سے اپنی نسبت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں
میں تو اس وقت سے منسوب تیری ذات سے ہوں
جب کہ جبریلِ امیں بھی تیرا دربان نہ تھا
آپ نے اردو کے علاوہ فارسی میں بھی بیشتر کلام تحریر فرمائے۔حافظ صاحب کا انتقال 22 مء 1981ء میں ہوا آپ کا مزار چھتر شریف میں واقع ہے۔
بغیر فاتحہ گزریں نہ زاہرانِ حرم
حرم کی راہ میں مظہر کا گر مزار ملے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں