columns 99

بو سید ہ سسٹم کوغسل تیزا ب دیا جا ئے

تو ا نا ئی کے مختلف ذرا ئع کے نر خو ں میں اضا فے کے اثر ات دیگر اشیا ء پر بھی پڑ رہے ہیں عو ام کی حا لت مسلسل خر ا ب سے خرا ب تر ہو رہی ہے عا م آدمی ہوشر یا مہنگا ئی کے سبب پیٹ کا ٹ کر زند گی گزا رنے پر مجبور ہے بیشتر گھر انے ایسے ہیں جہا ں مہینے کا اکٹھا سو دا سلف خر ید کر لا نے کا رو ا ج ختم ہو تا جا رہا ہے اشیا صرف کا عو امی قو ت خر ید سے با ہر ہو جا نا سب سے بڑا اور پر یشا ن کن مسئلہ ہے ملک میں اشیا ء خو ردنو ش کی بڑ ھتی ہو ئی مہنگا ئی مہنگا پیٹرو ل،بجلی اور گیس نے مڈل کلا س کے کس بل نکا ل دئے ہیں اس حو ا لے سے اگر کو ئی تجز یہ کار یا عا م شخص یہ کہتا ہے کہ لا ئن لا سنر اور مفت بجلی دئے جا نے کا بو جھ عوام کو اٹھا نا پڑ رہا ہے تو یہ با ت سمجھ میں آتی ہے اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ وہ عا م آدمی یا معا شی ما ہر ین و تجز یہ کار حکو مت میں نہیں ہو تا وہ اس پو ز یشن پر نہیں ہو تا کہ وہ اس نظا م کی درستگی کے لئے کوئی اقدا ما ت اٹھا سکے

اس کے پا س صرف ایک ہی طر یقہ ہو تا ہے کہ وہ سو شل میڈ یا، اخبا را ت، ٹی وی چینلز پر آکر اس مسئلے کو اجا گر کر ے اور اس کا حل بتا ئے پا کستا ن میں قبا ئلی اور دیہی علا قوں میں ہی بجلی چو ری نہیں ہوتی بلکہ کر ا چی،لا ہو ر، راولپنڈی اسلا م آباد،پشا ور اور کو ئٹہ ملتا ن حیدر آباد جیسے شہرو ں کی مار کیٹیں میں بھی بجلی چوری ہوتی ہے یہ چور ی بجلی کے محکمہ کے ساتھ مل کر یا عملے کی غفلت کی وجہ سے کی جا تی ہے اس چو ری کی قیمت قا نو ن پسند صارف کو ادا کر نی پڑ تی ہے مہنگائی نے عوام میں ہلچل مچا رکھی ہے ٹر ا نسپو رٹ کے کر ا یو ں میں ہو شر ح اضا فہ ہو رہا ہے جو بسو ں اور ویگنو ں میں سفر کر نے وا لے غر یب آدمی کے لئے مشکلا ت کا با عث بن رہے ہیں آج عا م آدمی سے لے کر صنعت کا روں تا جرو ں تک کے لیے بجلی کے بلو ں کی ادائیگی سب سے بڑ ا معا شی مسئلہ بن چکی ہے قیمتو ں میں اس اضا فے نے نہ صر ف عا م آدمی کو متا ثر کیا ہے

بلکہ ملک بھر میں کاروبار اور صنعتو ں کو بھی متا ثر کیا ہے ساما ن اور خدما ت کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں کیو نکہ کارو با ر کو نقل حمل کی اضا فی لاگت بر دا شت کر نی پڑ تی ہے پاکستا ن درآمد ی تیل پر زیا دہ انحصا ر کر تا ہے اس لئے بین الاقوامی منڈی میں کو ئی بھی تبد یلی مقا می قیمتوں پر اثر اندا ز ہو تی ہے ایک اور عنا صر جس نے اس اضا فے میں اہم کر دار ادا کیا ہے وہ ہے امریکی ڈا لر کے مقا بلے میں پاکستا نی رو پے قدرمیں کمی تیل کی درآمد ات زیا دہ تر ڈا لر میں ہو تی ہیں رو پے کی قدر میں کمی نے پا کستا ن کے لئے تیل کی در آمد کے مز ید مہنگا کر دیا گیا ہے ملک میں گذشتہ تین بر سو ں کے دو را ن مہنگا ئی میں دگنا اضا فہ ہو گیا سب سے زیا دہ اضا فہ اشیا ء خوردنو ش کی قیمتو ں میں ریکا رڈ کیا گیا ہے پا کستا ن میں ڈالر کی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندو زی کر نے و ا لو ں کے خلا ف کر یک ڈاو ن کے ا ثرا ت ملکی کر نسی پر ظا ہر ہو نا شروع ہو چکے ہیں اداروں کے متحر ک ہو نے کی وجہ سے ڈا لر کی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوز ی کر نے وا لو ں میں خو ف پا یا جا رہا ہے

اور مسلسل ڈالر کی قدر میں گر اوٹ سے ڈا لر ہو لڈ کر نے و الے پر پر یشا ن ہو گئے ہیں ڈالر کی قیمت میں کمی تو نظر آرہی ہے لیکن اس کے اثر ا ت ابھی تک نچلی سطح تک نہیں پہنچ پا ئے ڈ ا لر کی قدر میں اضا فے کا جو از بناکر جن اشیا ء کی قیمتو ں میں اضا فہ کیا گیا تھا اب وہ اضا فہ وا پس ہو نا چا ہیے اور غر یب عو ا م کو ریلیف مہیا کیا جا نا چا ہیے سٹیٹ بنک سمیت دیگر ادارے اگر ڈا لر کو با ہر جا نے سے رو کنے میں کا میا ب ہو جا تے ہیں تو ملکی کرنسی ایک بار پھر اچھی پو زیشن میں آسکتی ہے ملک میں معا شی بحران کئی برسوں سے جاری ہے جس کے اثرات عام آدمی کی زندگی دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے اس لیے زندگی گزارنا نا ممکن
ہو گیا ہے اور بیماری کی صورت میں دوائی بھی نہیں لے سکتا اور مرنے کے بعد کفن دفن کے اخراجات بھی پورا کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے بجلی پانی گیس اور دیگر بلوں میں ہوشربا اضافے نے اس کی کمرتوڑ کر رکھ دی ہے تیس یاچالیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والا ایک فرد اپنے بچوں کی سکول فیس،گھر کا کرایہ روز مرہ کی اشیا ء کی خریداری کرنے میں بے بس نظر آتا ہے غریب عوام پر ٹیکس کی بھرمار کی جارہی ہے دوسری طرف سرکاری افسران اور اعلیٰ عہدیداراپنی تنخواہ میں مراعات سہولتیں اور پنشن میں کمی کرنے پر تیار نہیں ہیں واپڈا اورڈسکوز کے افسروں اور ملازمین ہی کو نہیں بلکہ دیگر اعلی سرکاری عہد یداروں کو فری بجلی کی سہولت موجود ہے اور اپنے گھروں اور دفاتر میں میں پورا دن ایئر کنڈ یشن چو بیس گھنٹے چلتے ہیں اور انہیں لگژری سرکاری گاڑیاں ملی ہو ئی ہیں بہت سے افسروں کو بلٹ پروف گاڑیاں دی گئی جاتی ہیں بلکہ ان کی سبزی تک سرکاری گاڑیوں میں لائی جاتی ہیں بجلی کی بھڑتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے فیکٹری مالکان اپنی فیکٹریاں بندکرنے پر مجبور ہو گئے ہیں

جس کی وجہ بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے افسر شاہی اس مہنگائی کے طوفان سے مبرا ہے کیونکہ اسے حکومت کی طرف سے تمام سہولیات زندگی مفت فراہم کی جا رہی ہیں اسے مہنگائی کے طوفان کا کچھ علم نہیں جیسی سہولیات مراعات اوراختیارات میں اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کو فراہم کی جا رہی ہیں اس کی مثال دنیا میں شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہو امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی سرکاری ملازمین و اعلیٰ عہدیداران کو ایسی سہولیات اور مراعات نہیں ہوں گی پاکستان کے سسٹم میں اعلیٰ ریاستی عہدیداروں کو ایسی سہولیات اورمراعات نہیں ہوں گی پاکستان کے سسٹم میں اعلیٰ ریا ستی عہدیداروں اور نوکر شاہی کو احتساب کے دائرے سے ماہر رکھا گیا ہے افسروں کے غلط فیصلوں ان کو جوابدہی کے قوانین موجود نہیں ہیں اگر ہیں بھی تو نہایت کمزور اور الہام سے پرُہوتے ہیں جب ملک معاشی بدحالی کا شکار ہو تو سب سے پہلے سرمایہ دار سیاست دان اور بیوروکریٹ طبقہ جو اپنی ذمہ دار ی کا احسا س کرتے ہوئے معاشی بحران پر کنٹرول کرنے کے لیے اپنی کاوشوں کا اظہار کرنا چاہیے سرکاری اداروں میں بورڈآف ڈائریکٹر بنا کر من پسندافراد کا تقرر کیا جاتا ہے

جن کی قابلیت سوائے رشتہ داری،دوستی یا مالی و سیاسی وابستگی کے کچھ نہیں ہوتی یہ لوگ ریاستی اداروں کی بربادی کے ساتھ ساتھ قومی خزانہ پر بھی ایک بوجھ ہوتے ہیں دنیا کے دیگر ممالک نے اپنا ایک بوجھ ہوتے ہیں دنیا کے دیگر ممالک نے اپنا ایک نظام بنایا اور اس کو مسلسل بہتر کرتے گئے جبکہ پاکستان میں کوئی سسٹم بنایا ہی نہیں گیا اور نہ ہی کوشش کی گئی اور جو تھوڑابہت بنا ہوا تھا وہ بھی اب آخری سا نسیں لے رہا ہے سسٹم ایسا ہوکے جس میں قوانین وضابطے الہام سے پاک ہوں جو جتنا اختیار ہو اس پر قانون کا چیک بھی اتنا ہی سخت اور افعال ہونا چاہیے ایسے فول پروف سسٹم میں نااہل لوگوں کو داخل کرنا انتہای مشکل ہوتا ہے ہمارا سسٹم بوسیدہ اور بیکار ہے اور اس سسٹم کو غسل تیزاب دینے کو ضرورت ہے معاشی بحران ایک حقیقت ہے جس سے آنکھیں چرائی نہیں جا سکتیں مگر اس بحران سے نبردآزما ہونے کے لیے مثبت حکمت عملی کی ضرورت ہے جس کے تحت مہنگائی کی لہر کا بوجھ غریب کے کندھوں پر نہ ڈالا جائے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں