177

بس کام کرنے دیا جائے

پرامن راستے کا انتخاب کسی کی کمزوری سمجھ بیٹھنا محض خام خیالی اور دھوکہ ہوتا ہے جو آدمی قانون پر چلنے کی ٹھان لے اور اس پر سختی سے کا ربند رہتے ہوئے ملی بھگت کا قلع قمع کرے اور سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے ہدف حاصل کر لے تو اسے حقیقی کا میابی کہتے ہیں اس سے ہی اصل خوشی حاصل ہوتی ہے ہمارے لوگ آزادی کی 75بہاریں دیکھ چکے ہیں غلامی کے ہتھکنڈوں سے اب تو عاجز آجائیں طاقت کے آگے بند باندھنا اب تو سیکھ لیں پرانے لوگوں کی سازشی سوچ کو دفنا دیں ملی بھگت سے حق کو دبانا اس کے خاتمے کی جدوجہد شروع کرنے کا عزم مصمم کرلیں غیر حقیقی اصولوں پر استوار ایسی تمام عمارتوں کو مسمار کر دیں جن کی پائیداری مشکوک اور زندگی کی ضمانت تک نہیں، جان دینے کے بجائے جان لینے کی جرات دکھائیں آگے بڑھ کر احساس اجاگر کریں کہ اب طرزِ کہن نہیں چلے گا۔ہتھکنڈں،پروپیگنڈے،تشدد اور غلط مقدمات کے ذریعے دھمکانا اب ان روایتی کاموں سے نکل کر حقیقی طرزِ زندگی اختیار کرنا وقت کی ضرورت بن چکا ہے ترقی پذیر ممالک کے پاس آبادی،وسائل ہونے کے باوجود مضبوط نظام حکومت اور مستقل قوانین نہیں ہیں جن کے ذریعے وہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو باور کراسکیں کہ ہم ایک قوت ہیں کمزور ریاستی قوانین‘لچکدار عملدرآمد طاقتور کے تابعے نظام کبھی ایسے نتائج نہیں دے سکتا جن کی بدولت ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آسکیں اس پرانے نظا م کو کبھی تو دفنانا ہو گا شاید اس سے بہتر وقت ممکن نہیں جب ہماری دہلیز پر دستک دی جارہی ہو اور ہم ابھی خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوں حال ہی میں ہمارے ملک میں ایسی فضا قائم ہو چکی ہے جب تمام تر ریاستی فرسودہ حربوں کے باوجود قانون کی راہ اپناتے ہوئے اعلیٰ سطح پر اہداف حال کیے جارہے ہیں اب بھی کچھ لوگ پرانی طرز پر چل رہے ہیں اور آگے بڑھنے کے بجائے جوڑ توڑ تعلقات پرانے حوالوں کی بنا پر قومی کردار بڑھانے کی تگ و دو میں ہیں۔واضح ہدف کے بغیر نظریہ سے عاری ہدف‘بنیاد سے ہٹی منصوبہ بندی،منشور کے بغیر جدوجہد محض چند ممبران اسمبلی کو ادھر سے ادھر اور وہاں سے یہاں لانے کی صلاحیت کے بل بوتے پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں جارحانہ طرزِ عمل سے عاری جدوجہد نظریاتی نہیں ہوتی جن کا وثوق ہوتا ہے ان کا مزاج گرم اور عمل کی رفتار زیادہ ہوتی ہے ان کو کسی کا انتظار نہیں ہوتا بلکہ لوگ ان کا ساتھ دینے کے منتظر ہوتے ہیں دیگر ممالک کے انتظامات کی مثالیں تو ہم دیتے ہیں مگر خود ہم ان اصولوں سے دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں خودغرضی ہمارے ہاں عام ہو چکی ہے قومی کام ہو یا ذاتی کاروبار ہماری ساری کوشش اپنے ذاتی مفاد کے گرد گھومتی ہے کہ ہم دولت،مکان،گاڑی عیاشی اور کھانوں سے پیٹ بھرنے سے پیچھے نہ رہ جائیں ہم ان تمام فوائد کو سمیٹنا چاہتے ہیں جو ہماری ذاتی زندگی میں نام نہاد راحت و سکون لا سکے۔حالانکہ قومی پیداوار میں اضافے اورا ور ترقی کی خاطر جانوں کے نذرانے بھی دینے پڑتے ہیں ایمانداری پر چلتے ہوئے بہت سی آزمائشیں بھی جھیلنی پڑتی ہیں۔آج ایک توانا آواز گونج رہی ہے تمام تررکاوٹوں کے باوجود یہ سمجھانے میں مصروف عمل ہے کہ ہمیں ترقی یافتہ بننے کے لیے اپنے قوانین پر عمل کرنا ضروری ہے قانون نے جو دائرہ متعین کیا اور ان اصولوں پر چل کر ہم واضح موقف اختیار کر کے کامیاب ہو سکتے ہیں ہم اپنے اصول نہ چھوڑیں بلکہ ان اصولوں پر عمل پیرا ہو کر اقوام عالم کے لیے مثال بنیں۔خودساختہ نشریات کے خول سے نکلیں سادہ اصولوں کو اپنا کر ہی ترقی،خوشحالی کی منزل حاصل کر سکتے ہیں بدلے،انتقام،ہم وطنوں پر ظلم،زیادتی ان کو محروم رکھ کر کیسے ہم ترقی یافتہ ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں وسائل کے لحاظ سے کیا ہم کسی سے کم ہیں؟بالکل نہیں صرف مفت کی آسائشوں کے عادی ہیں ہر ضرورت اور سہولت مفت حاصل کرنے کی خاطر بار بار حکومتی نظام میں مداخلت،رد و بدل کرتے ہیں تاکہ ہمیں محنت کے بغیر زندگی گزارنے کی تمام سہولتیں حاصل ہو سکیں اور عام لوگوں کی ضرورتوں،خواہشوں کو پاؤں تلے روند کر ہم اپنے بچوں کو بیرون ملک بھیج سکیں وہاں جائیدادیں بنائیں کاروباری بنائیں اور اس ملک میں بے شک بد امنی،بدحالی،بے روزگاری اور بھوک رہے۔اب ایسا مشکل ہوتا جارہا ہے عام لوگوں کے پاس وسائل اور مواقع کی کمی اب خوشحال لوگوں کو بھی امن سکون سے بیٹھنے نہیں دے گی۔اس لیے اگر کسی نے بیڑا اٹھا ہی لیا ہے تو اس کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں اس کی کوشش جدوجہد کو اور کوئی رنگ نہ دیا جائے بس کام کرنے دیا جائے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں