69

ہم خود ذمہ دار ہیں اس کے ؟ ظہیر احمد چوہدری

کل سوشل میڈیا پہ ایک بھائی نے سوال کیا ، سوچا اس کا جواب وہاں پہ دینے کی بجائے سب کو دیا جائے ، سوال یہ تھا کہ اگر ہر کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے اور تمام پریشانیاں اور مشکلات اللہ نے ہماری قسمت میں لکھ دی ہیں ، جب سب کچھ اللہ ہی کرتا ہے اور اس کے حکم سے ہوتا ہے تو پھر ہم دوسروں کو الزام کیوں دیتے ہیں کہ یہ قتل فلاں نے کیا، یہ چوری اس نے کروائی ، میری قسمت میں ایسا ہی لکھا تھا، میری قسمت ہی خراب ہے وغیرہ وغیرہ ۔تو پھر ہمارے پاس عمل کا انتخاب کہاں ہے اور جو مشکلات اس نے ڈال دی ہیں ان کو حل کیسے کیا جائے ؟ اس طرح کے سوالات میرے آپ سمیت سب کے ذہنوں میں آتے ہیں آئیے دیکھتے ہیں کہ اصل معاملہ کیا ہے ۔مثال کے طور پہ اگر ہمارے ماں باپ کو اولاد کے پیدا ہونے سے پہلے اولاد کی قسمت اور نصیب لکھنے کااختیار دے دیا جاتاتوکیا وہ اپنی اولا د کی قسمت میں یہ لکھتے کہ میرے بچے کا کاروبار تباہ ہو جائے ، گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو جائے ،ٹانگ ٹوٹ جائے ، اولاد سے محروم رہے ، ہارٹ اٹیک ہو جائے ،بیٹی کو طلاق ہو جائے ،شوگر سے مر جائے ،کینسر ہو جائے ، پولیو ہو جائے ، ڈینگی کاٹ لے ،بچہ پیدائشی معذور ہو ، ماں کو بڑھاپے میں چھوڑ جائے ، بھوک سے مر جائے ؟؟؟؟؟ نہیں ہرگز نہیں ، ایسا نصیب اور قسمت ماں باپ اپنی اولاد کا کبھی نہیں لکھیں گے تو پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا اللہ ہماری قسمت اور مقدر کا جب فیصلہ کرنے لگے ، ہماری قسمت جب لکھنے لگے تو مشکلات ہی مشکلات اور پریشانیاں ہی پریشانیاں لکھ دے ؟ یاد رکھیے اللہ کو نصیب اور مقدر لکھتے وقت کوئی Dictate نہیں کرسکتا وہ بے نیاز اور با اختیار ہے وہ ہمارا ایسے ہی مقدر لکھے گا جیسا ایک ماں اپنی اولا د کے لیے چاہتی ہے ستر ماؤں سے زیادہ شفیق اللہ ہماری زندگی میں سکھ ہی سکھ اور خوشیاں ہی خوشیاں لکھے گا۔تو پھر ہمارے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ پھر ہماری زندگی میں پرابلمز ہی پرابلمز کیوں ہیں ، ہمارے ساتھ بیڈلک کیوں ہوجاتی ہے وغیرہ وغیرہ ، اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ فیکٹ یہ ہے کہ ہم اخلاقی طور پہ گراوٹ کا شکار ہوچکے ہیں ، ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس کی وجہ صرف اور صرف دوسرے لوگ ہیں ، مثلاً میرا موڈ اس کی وجہ سے خراب ہے ، میری زندگی ان لوگوں نے خراب کی ، اگر وہ فلاں سے پالیسی لینے کی بجائے مجھ سے انشورنس کی پالیسی لیتا تو مجھے اتنا فائدہ ہوجاتا اور جب اس طرح کے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرانے کو ہمیں کوئی بھی نہیں ملتا تو پھر ہم بڑی ڈھٹائی سے تمام چیزوں اور نقصان کا ذمہ دار اللہ کو ٹھہرا دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ اللہ سے ناراض بھی ہوجاتے ہیں کہ why me only? ، میں نے ایسی کونسی غلطی کی تھی ، میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے ، سب کو اولاد دی بیٹے دیے مجھے کیوں نہیں، کالے کلوڑے ان پڑھ کو خوبصورت بیوی دی ،ان پڑھ انگوٹھا چھاپ نوٹوں میں کھیلتا ہے اور میں پڑھ لکھ کر بھی معقول نوکری کو ترستا ہوں ایسا کیوں ہے ؟ دراصل جب ہم ایسا گمان اللہ کے بارے میں رکھتے ہیں تو اللہ سے اپنے تعلقات مزید خراب کر لیتے ہیں جس کے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اللہ کا شکر ادا کرنے اور اس کی محبت سے محروم ہونے کے ساتھ اپنی اصلاح بھی نہیں کر پاتے کیونکہ ہم نے پہلے ہی اپنی غلطی دوسرے کے کھاتے میں ڈال دی ہوتی ہے ، اس کیفیت سے نکلنے کا بہت آسان سا حل ہے۔آپ آج سے ہی یہ سوچنا اور گمان رکھنا شروع کر دیں کہ ہمارے ساتھ جو بھی ہوچکا، جو ہورہا ہے ، جو ہو نا ہے اس کے ذمہ دار ہم خودتھے ، خود ہیں ، خود ہوں گے جو ہم نے بویا تھا وہ کاٹ رہے ہیںیا جو بو رہے ہیں وہی کل کاٹیں گے ۔اس طرح اللہ آپ کو مسائل حل کرنے کی توفیق قوت اور ہمت عطا فرمائے گا ، تمام پرابلمز کے ذمہ دار ہم خود ہیں ورنہ اللہ تو چاہتا ہے کہ ہم پہ انعامات کی بارش کر دے ، ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتا ہے ،انسان تباہی اور بربادی کا انتخاب خود کرتا ہے ، مثال کے طور پہ آپ بچے کو پنسل ، کاپی وغیرہ سب مہیا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیٹا اسائنمنٹ مکمل کرلوکل صبح استاد چیک کرے گا۔بیٹا سوچتا ہے چھوڑو کارٹون دیکھتے ہیں ، کرکٹ کھیلتے ہیں ، ٹی وی پہ سی آئی ڈی بہت دلچسپ ہے اور وہ اسائنمنٹ حل کیے بغیر سکول چلا جاتا ہے ۔جب سکول میں استاد کام چیک کرتا ہے تو کام مکمل نہ کرنے پہ طالب علم کو سرزنش اور جسمانی سزا بھی دیتا ہے ۔اچھا اگر آپ بچے اور استاد کے بیچ میں کھڑے ہوجائیں کہ میرے بچے کو سزا نہ دیں میں روزانہ اس کی اسائنمنٹ حل کر دیا کروں گا ۔کیا آپ ایسا کر یں گے ؟ میرا خیال ہے ہر گز نہیں بلکہ آپ چاہیں گے کہ بچہ قابل اور تعلیم یافتہ اسی صورت میں ہوگا جب سکول کا کام جم کر اوروقت پہ مکمل کرے گا۔بالکل اسی طرح والدین سے ستر گناہ شفیق اور محبت کرنے والا اللہ ہمیں اچھا برا سمجھا دیتا ہے اور ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ کیا کرنا ہے اور کس سے پرہیز کرنا ہے ۔اب اس کے بتائے ہوئے راستے پہ چلنے کی بجائے جب ہم روزانہ کی پانچ وقت نماز کی اسائنمنٹ اور دوسرے مسنون کام نہیں کرتے تو پھر ہم پہ جو سزا اور تنگی پریشانیاں آتی ہیں اس کے ذمہ دار ہم خود ہوتے ہیں ۔آخر میں کچھ حوالہ جات دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اس طرح کی بحث سے پرہیز کرنا چاہیے ’’ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ ہم تقدیر کے مسئلہ پہ بحث کر رہے تھے کہ اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، ہمیں بحث میں الجھے دیکھ کر بہت غصہ ہوئے اور فرمایا ! کیا تمہیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے ؟ کیا میں یہی چیزدے کر بھیجا گیا ہوں ؟ تم سے پہلے لوگ اسی وقت ہلاک ہوئے جب انہوں نے اس مسئلہ میں جھگڑا کیا ، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں کہ اس میں (یعنی تقدیر، قسمت ) ہر گز نہ جھگڑنا (ترمذی ، مشکوٰۃ ۲۲) حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ! جو شخص تقدیر کے مسئلہ میں ذرا بھی بحث کرے گا قیامت کے دن اس سے اس بارے باز پرس ہوگی اور جس نے اس بارے گفتگو نہ کی اس سے سوال نہیں ہوگا (مشکوۃ ۲۳)تقدیر بر حق ہے اور اس کو ماننا شرط ایمان ہے ۔بس اتنا عقیدہ رکھنا چاہیے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ کو پہلے سے اس کا علم تھا اور اس نے پہلے سے اس کو لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے ۔انسان کے نیک اور بد اعمال پر جزا و سزا کا نظام بھی اللہ کا ہے ، نیک کاموں سے اللہ کی رحمت آتی ہے اور برے کاموں سے ہلاکت ،ہر صاحب ایمان کا یہ عقیدہ ہے کہ کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز صرف اللہ تعالیٰ کے ارادہ ، قدرت ، مشیت اور علم سے وجود میں آئی ، بس میں اتنا جانتا ہوں کہ ایمان بالقدر کے بغیر ایمان صیحح نہیں ، اس سے آگے یہ کیوں ؟ وہ کیوں؟ میرے ساتھ ایسا کیوں؟ اس کی مزید وضاحت سے نہ صرف میں معذرت چاہتا ہوں بلکہ اس کو بربائ ایمان کا ذریعہ بھی سمجھتا ہوں ۔ الحمد للہ علی کل حال (اللہ ہر حال میں تیرا شکر ہے ){jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں