میرے ملک میں اکثر طبقات اور ان کے رہنماؤں کی کمر یورپ پہ تنقید کرنے پہ ٹوٹتی ہے، میں بھی کسی یورپی ملک، یورپی لیڈر یا سیاست دان کا مداح نہیں ہوں، لیکن ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے اپنی عادت سے مجبور ہوں،
جہاں کوئی دہرا میعار، دونمبری یا ضمیر فروشی کا بازار گرم دیکھوں، اپنی استطاعت کے مطابق شعور کا دیا جلاتا ہوں، کل اپنے پروفیسر سے ملنا تھا، وہ کسی میٹنگ میں تھے
، آفس میں بیٹھا تاریخ کے پنے الٹنے لگا، پھر اچانک میری نظر ایک ایسے واقعے پہ پڑی کہ دل دہل گیا، ضمیر نے کہا شاید ہم آج بھی یورپ سے تقریبا دو سو سال پیچھے ہیں، انصاف اور ایمانداری کے معاملے میں، آج بھی برطانیہ کے ایک قدیم آثار پرور عجائب خانے میں رکھی وہ خستہ حال کتاب اور اس کی جلد گواہ ہے کہ آج سے دو سو سال کیسے ایک نہایت حیران کن اور دل دہلا دینے والا انکشاف ہوا۔
ایک راز تھا جو افشا ہوا اور پھر اس راز کو دنیا بھر کے لیے صدیوں کے لیے محفٹ کر دیا گیا، کتابیں اپنے دامن میں لفظوں کی صورت میں لوگوں کو بطور عبرت سنبھال رکھتی ہیں، لیکن اس کتاب کی خاموشی بھی کسی کو نشان عبرت بنا رہی تھی، جی ہاں، اس کتاب کی جلد کو انسانی کھال سے گیا تھا
اور وہ کھال ایک بدنامِ زمانہ مجرمِ کے جسم سے نوچی گئی تھی جس کا نام ولیئم کورڈر تھا، جسے قریباً دو صدیاں قبل نشان عبرت بنا کر ہوئے دار پر لٹکا دیا گیا تھا۔ ولیئم، ابھی نوجوان تھا، اس نے زندگی کی محض بائیس بہاریں دیکھیں تھیں، انگلستان کے قصبہ پولسٹیڈ کا مکین تھا،
ذندگی مزے سے چل رہی تھی کہ اچانک اسے ایک جوان سال دوشیزہ ماریا مارٹن کی محبت نے اندھا کر دیا، ماریا، اس سے دو سال بڑی تھی، اس کی عمر تقریباً چوبیس سال تھی، اپنے ضعیف والد‘ سوتیلی ماں، بہن اور ایک کمسن فرزند کے ہمراہ اپنی زندگی گزار رہی تھی۔
سن 1827ء میں،جب اسے فوری برداشت نہیں ہوئی تو اس نے ماریا کو ترغیب دی کہ ان دونوں کو اس معاشرتی قیود سے منہ موڑ کر، نخلستانِ آزادی کی جانب راہِ فرار اختیار کر لینی چاہیے، یہ قید کی زندگی بھی بھلا کوئی زندگی ہے، ماریا اس کی باتوں میں آ گئی،
انہوں نے قریبی کھیتوں میں واقع ایک اجاڑ گودام میں جاکر ملنے کا فیصلہ کیا۔ یہی وہ دن تھا جس دن محبت سازش میں بدلی اور حماقت کا انجام المیے میں ڈھل کر دنیا کے لیے نشان عبرت بن گیا۔ وہ مقرہ وقت پہ مقرہ جگہ پہنچے، ایک خوبصورت ملاقات ہوئی اور پھر دونوں کردار اس علاقے سے کہیں غائب کو گئے،
لیکن کہتے ہیں تقدیر بڑی ظالم ہے، شکار خود شکاری کے جال میں آ پھنستا ہے، ولیم نے بھی ایسا کیا، ماریا کے خاندان کو بعد ازاں ایک مکتوب لکھا، جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ وہ دونوں وصالِ یار کی تلاش میں گم گشتہ ہو چکے۔ ان کو بلا وجہ تلاش نہ کیا جائے مگر حقیقت اس فریب کی تہہ سے کسج اور رنگ میں رنگی ہوئی تھی،
ولیئم لندن کے نواح میں روپوش تھا اور ماریا محبت کے نام پہ قتل ہو چکی تھی، اور اس کی لاش وہیں دفن تھی، جہاں اسے محبت کے دلاسے پہ بلایا گیا تھا—اس کی گردن میں پیوست گولی گواہی دے رہی تھی کہ عشق کے لبادے میں پوشیدہ درندگی نے کیسا خوں چکاں کھیل کھیلا۔
یوں یہ کھیل چھپانے کی کوشش کی گئی، لیکن کچھ حقائق تاریخ کے نقش ہونے کے لیے ہوتے ہیں، تقریباً ایک سال بعد، ماریا کی سوتیلی والدہ کو ایک خواب آیا، اس نے خواب میں ایک عجیب منظر دیکھا، وہ خواب میں دیکھتی ہے کہ ماریا اس کے سامنے گڑگڑاتی ہے اور فریاد کرتی ہے کہ اس کی لاش گودام میں پڑی ہے۔ اس نے سوتیلی ماں نے یہ خواب اپنے شوہر کو سنایا، والد نے اس خواب کو سنجیدگی سے لیا اور وہاں کھدائی کروانا شروع کی، چند لمحوں کی کھدائی کے بعد خاک تلے مدفون وہ لاش نمودار ہوئی، جس کی سانسیں اس خواب کے ذریعے گویا عدل کا در کھٹکھٹا رہی تھیں۔
اس کے بعد عدالت نے ولیئم کی تلاش کا باقاعدہ آغاز کرنے کا حکم دیا، ایک مقامی اخبار کے مدیر نے عدالت کو یہ اطلاع دی کہ وہ ولیئم کو پہچانتا ہے۔ ولیئم جو اکیلا رہ رہ کر اکتا چکا تھا، فرار کے ایام میں، تنہائی نے اس کی زندگی اجیرن کر دی تھی، اس خوفناک تنہائی سے تنگ آکر شادی کا فیصلہ کیا اور انجانے میں اخبار میں ایک اشتہار دے بیٹھا، جو اس کی زندگی کو عبرت بنانے کی وجہ بنا، پولیس نے اخبار مالکان سے رابطہ کیا، ولیم کا پتا حاصل کیا اور اسے پکڑ لیا۔
تفتیش کے دوران ولیئم نے کافی بار ماریا کے بارے میں لا علمی کا اظہار کیا، جیسے وہ اس المیے سے بالکل بے خبر ہے۔ولیئم پر قتل کے دس سے زیادہ الزامات عائد کیے گئے، تاکہ جرم کے ہر پہلو کو قانون کی گرفت میں لایا جا سکے۔جب ولیئم کو کوئی راہ فرار نظر نہ آئی تو اس نے اعتراف کر لیا کہ ماریا نے خود کو گولی ماری ہے،
یعنی وہ وہ ایک مردہ عورت کو ہی موردِ الزام ٹھہرانے سے باز نہ آیا۔ تاہم، دو روزہ عدالتی کارروائی کے بعد اسے اسے اپنے جرم کا قرار کرنا پڑا کہ تند و تیز بحث کے دوران اس سے گولی چل گئی تھی، پھر حکومت نے اے پھانسی دینے کا فیصلہ کیا، باقاعدہ میداں سجایا گیا، موت کا منظر تماشائیوں کے ہجوم کے سامنے تھا۔ گیارہ اگست 1827ء کے دن سات سے دس ہزار نفوس پر مشتمل ایک مجمع اکٹھا کیا گیا، ہزاروں لوگوں نے ولیئم کو موت کی طناب میں جھولتے دیکھا۔
تاریخ گواہ ہے کہ رش اس قدر تھا کہ حکام کو لاش کو جیل سے باہر نکالنے کے لیے دیوار میں شگاف ڈالنا پڑا۔ ماریا کی قبر اور قصبہ پولسٹیڈ برسوں تک سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہا۔ اس واقعے نے نہ صرف عوامی ذہن پر گہرا نقش چھوڑا، بلکہ اسے ادبیات، تھیٹر اور موسیقی کے کینوس پر بھی امر کر دیا گیا۔موئزے ہال میوزیئم میں آج بھی ولیئم کورڈر کا ’ڈیتھ ماسک‘ محفوظ ہے، جسے عوام دیکھنے آتے ہیں۔ اس کے جسمانی ڈھانچے کو ویسٹ سفولک ہسپتال میں برسوں تک طب کی تعلیم کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔
بعد ازاں، دو کتب دریافت ہوئیں، جن کی جلد میں ولیئم کی کھال استعمال ہوئی تھی۔ ان میں ایک کتاب، جو ’ڈبلیو کورڈر کا مقدمہ‘ کے عنوان سے موسوم ہے، اس کتاب میں وہ تحریر بھی محفوظ ہے، جو اس سرجن نے رقم کی تھی، جس نے ولیئم کے جسم کا طبی معائنہ کیا۔
اس نے لکھا کہ سنہ 1838 میں اسی نے ولیئم کی کھال کو کتاب کی جلد میں ڈھالا۔ تاکہ دنیا ایسے درندوں کی داستاں پڑھے اور کانپ اٹھے، یہ واقعہ جہاں اپنی نوعیت میں انوکھا، خوفناک اور انسانی فطرت کے تاریک پہلوؤں کا آئینہ دار ہے وہاں کروڑوں لوگوں کے لیے نشان عبرت بھی۔
حال ہی میں جب میوزیئم کے منتظمین کو یہ ادراک ہوا کہ ان کے ذخیرے میں موجود کتاب کی جلد قاتل کی کھال سے مرقع ہے، تو یہ راز گویا وقت کے دبیز پردوں کو چیرتا ہوا، پھر سے انسانی شعور کو جھنجھوڑنے آن پہنچا۔ لیکن دوسری طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر روز ایسے واقعات ہوتے ہیں،
تین سال پانچ سال، سات سال، انکل، چچا، ماموں روز اس ولیم کی صورت میں معصوم بچیوں کو نوچتے ہیں، درندگی کا نشانہ بناتے ہیں، اور پھر بے گوروکفن مٹی کو دان کر دیتے ہیں، معصوم بچیاں ظلم کا نشانہ بنتی ہیں، لیکن ہم ایسی ایک مثال تک قائم نہیں کر سکے، ویسے حج عمرہ اور جنت کی دعویداریوں میں کوئی ہم سا نہیں، معاف کیجیے گا ہم آج بھی یورپ سے دو سو سال ان خوبیوں میں پیچھے ہیں، جو اپنے دین کی میراث ہے، ہمارے اسلاف کی وراثت ہے، ہمارے نبی کا فرمان ہے اور خدا کی طرف سے بھیجی ہی مقدس کتاب کی امانت ہے، عدل و انصاف، ہم آج بھی پیچھے ہیں۔