علامہ دمیری فرماتے ہیں کہ میں نے حاکم ابو عبداللہ کی تاریخ نیشاپور میں ابو جعفر حسن بن محمد بن جعفر کے حالات میں لکھا ہوا دیکھا ہے کہ انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کی ہے۔
علی ابن ابی طالب ع سے منقول ہے کہ روسول اللہ ص نے فرمایا کہ جب اللہ نے گھوڑے کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو بادجنوبی سے کہا کہ میں تجھ سے ایسی مخلوق پیدا کرنے لگا ہوں جو میرے دوستوں کے لیے عزت اور دشمنوں کے لیے زلت کا زریعہ بنے اور جو میرے فرمانبردار بندے ہیں ان کے لیے زیب و زینت ثابت ہو۔ تو ہوا نے جواب دیا کہ اے میرے رب! آپ شوق سے ایسا جانور پیدا کریں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہوا میں سے ایک مٹھی لی اور اس سے گھوڑا پیدا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے گھوڑے سے فرمایا کہ میں نے تجھ کو عربی النسل پیدا کیا اور خیر کو تیری پیشانی کے بالوں میں گرہ دے کر باندھ دیا۔تیری پشت پر اموال غنیمت لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائیں گے تیری فراخی رزق کا خود میں کفیل رہوں گا
اور زمین پر چلنے والے دوسرے جانوروں کے مقابلہ میں تیری مدد کروں گا تیرے مالک کو تجھ پر مہربان بنا دوں گا اور تجھ کو اس قدر تیزی رفتاری دی کہ تو بیپر کے اڑا کرے گا لوگوں کو تیری ضرورت اپنی حاجت روائی اور دشمنوں سے لڑائی کے لیے ہوا کرے گئی اور عنقریب تیری پشت پر ایسے لوگوں کو سوار کرواں گا جو میری تسبیح و تہلیل اور تکبیر و تحمید کیا کریں گے
علامہ جاحظؒ نے لکھا ہے
گھوڑے نہ صرف سواری اور کھیل کے میدان میں استعمال ہوتے بلکہ اہم ترین جنگی سامان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عربوں کے دانشور اکثم بن صیفی نے اپنی قوم کو وصیت کی اے میری قوم! گھوڑے پالو اور ان کی تکریم کرنا سیکھو، یہ عرب کے قلعے ہیں۔کیونکہ مجھے خد بھی گھوڑوں کا بہت شوق ہے
انکی سواری کرنا نیزہ بازی کرنے کا بہت زیادہ شوق ہے اس لیے میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں اور لوگوں کو اس سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ گھوڑوں کا زکر قرآن پاک احادیث رسول ؐمیں بھی ہے قرآن مجید میں ہے کہ قسم ہے فراٹے بھرنے والے گھوڑوں کی، جو ٹاپوں سے چنگاریاں نکالتے ہیں،
صبح کے وقت چھاپہ مارتے ہیں، پھر گردوغبار بلند کرتے ہیں، پھر دشمنوں کے مجمعے میں جا گھستے ہیں، کہ بیشک انسان اپنے رب کا بڑا ہی نا شکرا ہے، اور بیشک وہ خود بھی اس بات پر گواہ ہے، اور وہ مال کی شدید محبت میں مبتلا ہے۔ سورت عادیات آیات نمبر (1تا 9) سرکار رسالت ص نے گھوڑوں کی سواری کی ان سے پیار و محبت کیا اور فرمایا اللہ نے اس کی پیشانی میں خیر رکھی ہے اور ہمیں گھوڑوں کی سواری کرنے کا بھی حکم دیا ہے،
اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ گھوڑوں رکھنا انبیاء کرام کی بھی سنت ہے اور اس میں ہمارے لیے خیر ہی خیر ہے۔ ہمیں گھوڑ سواری کرنی چاہیے اور گھوڑے پالنے چاہیے ایک تو اس سے ہمیں پرانے دور کی یادیں تازہ ہوتی ہیں دوسرا سرکارؐ کی سنت بھی ہے جزاک اللہ خیرا