نوید ملک ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
جب بھی صوبہ پنجاب میں کسی نئے ضلع بنانے کی باز گشت فضاؤں میں گھونجتی ہے تو اس کے رد عمل میں گوجرخان کو ضلع کا درجہ دلوانے کے خواہشمند بھی بے قرار و بیدار ہو جاتے ہیں اس دھرتی کے بیٹے اس کو ضلع کا درجہ دلوانے کا خواب گزشتہ 35سالوں سے آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں اسے ضلع کا درجہ دلوانے کے لئے کبھی مقامی کمیونٹی نے جوش دکھایا اور کبھی طلباء و تاجر یونین تنظیموں نے بھوک ہڑتالی کیمپ سجائے ، کسی نے سینکڑوں میٹر لمبے لٹھے پر لوگوں کے دستخط کروانے کی مہم شروع کی اور ایک بزرگ شہری نے اس دھرتی کے سر پر ضلع کا تاج سجانے کے لئے سائیکل پر پارلیمنٹ تک کا سفر کیا ، 1986ء میں بحیثیت طالبعلم لیڈر عبدالرحمن مرزا نے سید نور حسین شاہ ، سید حسین امام جعفری و دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر بیول ، مندرہ، دولتالہ میں گوجرخان کو ضلع بنوانے کے لئے بھوٹ ہڑتالی کیمپ لگائے ، 2013کے قومی الیکشن میں جب مسلم لیگ ن کی قومی قیادت نے گوجرخان میں ووٹرز کو اپنی طرف مائل کرنے کا سوچا تو منصوبہ سازوں نے اس کے لئے بیچاری تحصیل گوجرخان کو ضلع بنانے کا فارمولا سامنے لا کر سٹیج پر تشریف فرما میاں شہباز شریف و چوہدری نثار علی خان کے منہ سے کہلوایا ، راجہ پرویز اشرف جب شاہد خاقان عباسی کی طرح پاکستان کے اختیارات کے مالک تھے تو وہ اور ان کے برادر اصغر راجہ جاوید اشرف بھی اکثر عوامی اجتماع میں گوجرخان کو ضلع بنانے کی بات کرتے تھے کہ ’ضلع تم بناؤ اخراجات وفاقی حکومت دے گی ‘، لیکن یہ اور بات ہے کہ ان بیانات کو سرکاری ٹی وی پر نہ دکھانے اور سرکاری سطح پر جاری پریس ریلیز میں شامل کرنے سے روکنے کے لئے باقاعدہ وزیر اعظم ہاؤس سے عوامی وزیر اعظم کی طرف سے ٹیلی فونک ہدایات جاری کی جاتی تھیں، اس بات کی صداقت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ کیا پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت ایسا کوئی ڈائریکٹو لیٹر دکھا سکتی ہے جو راجہ پرویز ااشرف نے بحیثیت وزیر اعظم پاکستان وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھیجا ہو جس میں گوجرخان کو ضلع بنانے کی خواہش و حکم دیا ہو؟
آخر کیا وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی و مسلم لیگ ن دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے اقتدار کے دوران عوامی خواہشات و جذبات کو سامنے رکھ کر تحصیل گوجرخان کو ضلع بنانے کے لئے اسے متعدد بار سجا اورسنوار کر اس کے سر پر ضلع کے تاج سجانے کی بجائے اورکبھی ملکہ کوہسار کے سر پر سجانے کی کوشش اور کبھی کسی اور تحصیل کو ضلع بنانے کا شوشہ چھوڑ کر گوجرخان کو ضلع بنانے کا پروگرام پس پشت ڈال دیا جاتا ہے ، سابق منتخب ارکان قومی وصوبائی اسمبلی بالخصوص صاحب اقتدار جماعت مسلم لیگ ن سے وابسطہ موجود و سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو گوجرخان کو ضلع بنانے کا وعدہ یاد کرانے کی جسارت کر سکیں گے ؟ شاید ایسا ممکن نہ ہوسکے کیوں کہ ان نظریں آمدہ الیکشن و پارٹی ٹکٹ پر مرکوز ہیں ۔
کیا تحصیل گوجرخان کے باسیوں کے مسائل کا حل گوجرخان کو ضلع بنانے میں پوشیدہ ہے گوجرخان کے تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں مقامی باسیوں کے ساتھ ستم ضریفی کے درجنوں کیسسز سامنے آ چکے ہیں اس دھرتی کی مائیں اور بیٹیوں کے بچے ہسپتال کے لان اور ایمبولینس گاڑیوں میں جنم لے رہے ہیں اور کوئی زچہ بچہ ڈاکٹروں کی سرد مہری کی وجہ سے راولپنڈی شفٹ کرنے کے دوران اپنی جان گنوا بیٹھتی ہیں ، ان واقعات پر انکوائری رپورٹس سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ کی طرح پنجاب حکومت کے کسی اعلیٰ افسر کے دراز میں محفوظ ہے ، نہ کسی مقامی ماہر قانون نے ان رپورٹس کو پبلک کرنے کیلئے عدالت دروازہ کھٹکھٹایا نہ ہی کسی مقامی سیاسی سماجی شخصیت نے سنجیدگی دکھائی ، مقامی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے ٹراما سنٹر کو افعال کرنے کے لئے عملی طور پر کچھ نہیں کیا ان چار سالوں میں تحصیل گوجرخان میں سرکاری سطح پر کتنے نئے تعلیمی سکولز و کالجز کا آغاز کیا گیا ، پوٹھوہار یونیورسٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن چند دن فضاؤں میں لہرا کر راجہ جاوید اخلاص اور ایم پی اے افتخار احمد وارثی بھی گوجرخان میں فلائی اوور منصوبے کا نوٹیفکیشن کی کاپی دوستوں میں تقسیم کر کے خاموش ہو گئے یا پھر تخت لاہور کی خواہشات کے آگے بے بس شہر میں تجاوزات کی بھرمار نہ مقامی باسیوں کے لئے صاف پانی اور نہ تفریح کی سہولت گوجرخان سٹی کی ہاؤسنگ سوسائیٹوں میں درجنوں نجی ۔ دوستو! کیا گوجرخان ضلع بن جانے سے ان مسائل کا حل نکل آئے گا ۔ بلاشبہ تحصیل گوجرخان کو ضلع کا درجہ حاصل ہونے سے مقامی نوجوانوں کے لئے سرکاری سطح پر روزگار کے حصول کے مواقعوں میں اضافہ ہوگا ، گوجرخان کو ضلع بنانے کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرنے والے دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ گوجرخان کے باسیوں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اپنی توانائیاں صرف کریں پنجاب کے دیگر اضلاع کی بھی حالت آپ کے سامنے ہے کوئی بھی ضلع مثالی نہیں ہے، صوبہ پنجا ب کی سب سے بڑی تحصیل گوجرخان میں اب یونین کونسل بسالی و یونین کونسل ساگری کو بھی شامل کر کے اسے شاید پاکستان کی سب سے بڑی تحصیل بنانے کا منصوبہ سامنے لایا جارہا ہے کمی کہاں ہے ہمارے ارادوں میں ، ہمارے حوصلوں میں یا ہماری لیڈر شپ میں ، تیسری بار منتخب ہونے والے میاں شہباز شریف نے بحیثیت وزیر اعلیٰ پنجا ب ابھی تک تحصیل گوجرخان کا ایک بھی دورہ نہیں کیا ا سکا جواب شاید ہمارے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے پاس بھی موجود نہ ہو۔ آپ اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کرسکتے ہیں
98