حسرت و یاس اس کے چہرے پہ نمایاں تھی چہرے پہ وقت سے پہلے ہی آنے والی جھریاں بھی وقت اور حالات کی تلخیوں کو واضح کر رہی تھیں وہ اکثر مجھے بتایا کرتی تھیں کہ وہ بابا کی بہت لاڈلی تھیں بہت نازوں سے پلی بڑھی تھیں ان کی جانب نگاہ کئے ہوئے میں گزرے وقت کی یادوں میں گم ہو گیا تھا
کہتے ہیں نا کہ حالات بہتر تو ساتھ بہتر وہ دن بھی تھے کہ ان کے قصیدے پڑھے جاتے تھے ذرا سا کسی کو مسئلہ ہوا تو آن پہنچا ارد گرد عزیزو اقارب کی بھیڑ لگی رہتی تھی آہستہ آہستہ روشِ زمانہ تبدیل ہوتی گئی آزمائشیں آئیں تو سب رخ بدلتے گئے وہ جو چاہنے والے تھے اجنبی بن گئے۔
حالات کسمپرسی کہ آئے تو دروازے تو کھلے رہتے پر آنے والا کوئی نہ ہوتا کوئی جھانک کر بھی نہ دیکھتا تھا ان ہی خیالوں کی دنیا میں گم تھا کہ اچانک ان کی نقاہت بھری آواز کانوں سے ٹکرائی اور خیالوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا بہت کوشش کی کہ سمجھ پاوں وہ کیا کہہ رہی ہیں لیکن ان کے الفاظ سمجھ نہیں آ رہے تھے
بس ان کے لب ہلتے ہوئے محسوس ہوتے لیکن وہ کیا کہہ رہی تھیں یہ سمجھ نہ آرہا تھا پھر کچھ دیر کے لئے سکوت چھا گیا کافی دیر بعد پھر انہوں نے ہمت جمع کر کہ کہنا شروع کیا لیکن پھر وہی مسئلہ کہ ان کے الفاظ سمجھ نہ سکا آخر کار ان کے بہت قریب ہو گیا اور ان کے ہونٹوں سے کانوں کو لگا دیا بس یہ ہی سن پایا کہ گلابُگلاب۔
جی ہاں ان کو گلاب بہت پسند تھے جب بھی ان سے کوئی کہتا کہ آپ کے لیے کیا لاوں تو وہ گلاب کے پھول مانگتی لیکن جب حالات کشیدہ ہوئے تو کسی نے گلاب کے پھول تو کیا کانٹے بھی نہ دئیے بس موت کا نقارہ بج اٹھا اور ان کی روح ان ہی الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی سب کو خبرہو گئی
کہ وہ رحلت فرما گئی ہیں سب ہی عزیز واقارب اپنی جھوٹی چاہت و محبت کو ظاھر کرنے پہنچ چکے تھے بین کر رہے تھے اور بڑے دکھ اور کرب کا جھوٹا مظاہرہ ہو رہا تھا۔
مختصر کہ وقتِ دفن آ پہنچا وہ جو زندگی میں حالات کی کشیدگی کودیکھ کر رخ بدل گئے تھے بڑے بڑے شاپر بھر کر گلاب کے پھول و پتیاں لا رہے تھے اور لحد پہ نچھاور کرنا باعثِ ثواب سمجھ کر آگے آرہے تھے میں ان اپنوں کی اس منافقت کو دیکھ کر غم و غصہ سے پسیج ہوا جا رہا تھا کہ اب یہ کرنے کا کیا فائدہ؟ کوئی جواب دے
سکتا ہے جب سب اپنے دکھاوے کا غم دکھا کر رخصت ہو گئے اور میں اکیلا قبر کے پاس رہ گیا تو بے ساختہ منہ سے یہ الفاظ نکل آئے اٹھ جا ماں اب سب گلاب لے آئے ہیں کاش کہ یہ گلاب ان کی زندگی میں دئیے گئے ہوتے کاش کہ حالات کی گردش مفلسی کے بھنور میں نہ ڈالتی۔ خداراہ اگر کسی کو گلاب دینا ہی چاہتے ہیں تو اس کی زندگی کوہی گلاب بنائیں۔