کہوٹہ میں کچھ عرصہ قبل جب بلدیاتی الیکشن کا بگل بجا تو ایک ہلچل مچ گئی جس کی وجہ یہ کہ بلدیاتی ادارے بڑے عرصہ کے بعد مشرف دور فعال ہوئے اور ان کی وجہ سے نہ صرف عوام کو بنیادی سہولیات ان کی دہلیز پر ملنا شروع ہوئیں بلکہ لوگوں کے چھوٹے موٹے جھگڑے فساد اور دیگر حل طلب معاملات بھی تھانہ کچہریوں کے بجائے گھروں میں حل ہونے لگے تھے ۔ میرے خیال میں اس دور میں بلدیاتی ادارے اتنے مضبوط تھے کہ ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے اچانک بلدیاتی التوا کا شکار ہوگئے حالانہ امیدواران نے کاغذات بھی جمع کرائے تھے ۔لاکھوں روپے پارٹیوں، جلسوں پر خرچ کیے تھے جس کی وجہ سے امیدواران کو سخت مایوسی ہوئی اکثر امیدواران جو کہ صرف الیکشن کے موسم میں ہی نمودار ہوتے ہیں وہ غائب ہوگئے اور اکثرا میدوار ایسے بھی ہیں جنہوں نے خدمت خلق کا سلسلہ جاری رکھا ۔اب جبکہ دوبارہ الیکشن کا اعلان ہوا بلکہ ڈسپلے سینٹروں میں ووٹر لسٹیں اویزاں کر دی گئی ہیں اور امیدواران دوڑ دھوپ کر رہے ہیں اور اپنی اپنی وارڈوں میں منصوبہ بندی جاری ہے ۔گوکہ ابھی بھی ان کو یقین نہیں آرہا کہ الیکشن ہوں گے مگر کیا کیا جائے سیاست کا چسکا ایسا ہے کہ اس دوڑ میں شامل ہونا پڑتا ہے ۔اس وقت تحصیل کہوٹہ میں مسلم لیگ ن دو گروپوں میں تقسیم ہے اور ا س کے علاوہ بھی تقریباً ہر یونین کونسل میں مسلم لیگ ن کے امیدواران ہی ایک دوسرے کے مد مقابل نظر آتے ہیں گو کہ حکومت جماعتی الیکشن کرائے گی مگر یہ الیکشن پارٹی سسٹم کے بجائے برادری ازم اور اثرورسوخ کی وجہ سے لڑے اور جیتے جاتے ہیں ۔ویسے بھی مسلم لیگ ن کے لیے ٹکٹ دینا آسان نہیں ہوگا اور وہ کسی کی ناراضگی مول نہیں لیں گے اور میدان کھلا چھوڑ دیں گے اس وقت کہوٹہ ٹاؤن پر عوام کی نظریں لگی ہیں کیونکہ سابق ناظم راجہ ظہور اکبر اور الفتح گروپ کے امیدوار آصف ربانی قریشی کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے جبکہ راجہ ظہور اکبر اور حاجی ملک منیر اعوان کے درمیان بھی سخت مقابلہ ہو گا ۔الیکشن ہوں نہ ہوں نئی آبادی کے لوگوں کے مسائل حل ہو رہے ہیں ۔حاجی ملک منیر اعوان کو الفتح گروپ کی حمایت بھی حاصل ہونے کی توقع ہے ۔تحریک انصاف نے بھی الیکشن میں بھر پور حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور راجہ طارق محمود مرتضیٰ جن کو ضلع راولپنڈی کا ڈپٹی چیف آرگنائزر بھی مقرر کیا گیا ہے ان کی قیادت میں بھرپور مہم چلانے کا عندیہ دیا گیا ہے اور تحصیل صدر راجہ وحید احمد جوکہ خود بھی چیئرمین کے امیدوار ہیں رابطہ مہم شروع کر رکھی ہے۔اب دیکھتے ہیں کہ ان کی مہم کتنی بااثر ہے اور ان کے نمائندوں کا معیار کیا ہوگا جبکہ پیپلز پارٹی جوکہ کافی عرصہ سے غیر فعال تھی سابق ایم این اے غلام مرتضیٰ ستی کی قیادت میں دوبارہ متحرک نظر آتی ہے ۔انہوں نے عوام سے رابطے بھی شروع کر دیئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکمران بلدیاتی الیکشن کرانے میں مخلص نہ ہیں کیونکہ الیکشن کے بعد فنڈز بلدیاتی اداروں کے پاس چلے جاتے ہیں اور یہ فنڈز ایم پی اے ،ایم این اے استعمال کرتے ہیں۔غلام مرتضیٰ ستی نے کہا کہ ہماری جماعت بلدیاتی الیکشن میں بھرپور حصہ لے گی اور ہر جگہ امیدوار کھڑے کرے گی مسلم لیگ ن اس علاقے سے کامیاب ہوئی اور اس وقت سب سے اہم وزارت بھی اس حلقے کے شاہد خاقان عباسی کے پاس ہے گوکہ وہ معروف ہوں گے مگر اپنے حلقے کے عوام سے رابطہ ان کے مسائل حل کرنا بھی ان پر لازم ہے کسی نے ووٹ دی ہو نہ ہو وہ اس علاقے کے تمام لوگوں کے نمائندے ہیں عوام نے اس سے جو توقعات رکھی تھیں وہ پوری نہ ہوسکیں گو کہ انہوں نے کہوٹہ آڑی سیداں روڈ بنوائی اور 33کروڑ روپے کے فنڈز دلائے مگر افسوس کہ وہ چھ سال میں بھی تک مکمل نہ ہو سکی اور کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہے ۔ رمضان شریف کا مہینہ گزر گیا ۔اسسٹنٹ کمشنر کیپٹن(ر)بلا ل ہاشم اور ٹی ایم اے نے بھرپور کاوشوں سے لوگوں کو ہر ممکن ریلیف دینے کی کوشش کی مگر جب تک ہمارے دلوں میں خدا کا خوف نہ ہوگا اور مردہ ضمیر جاگ نہیں جاتے یہ معاشرہ سنور نہیں سکتا۔کاش اس عارضی زندگی کے لیے اتنا کچھ کرنے کے بجائے انسان اس نہ ختم ہونے والی زندگی کے لیے کرے تو نہ حکومت نہ پولیس نہ انتظامیہ کو کچھ کہنا پڑے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام خود ایک ماڈل ہوں۔{jcomments on}
104