185

کہوٹہ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی

کوئی بھی بڑی شخصیت جہاں کچھ وقت قیام کر لے وہاں ایسے نقوش ضرور چھوڑ دیتی ہے کہ آئندہ نسلیں روشنی کی رہ گزر پہ گامزن ہو جائیں۔ جہاں محسنِ پاکستان ڈاکٹر اے کیو خان نے خطہ پوٹھوہار کے شہر کہوٹہ کا انتخاب کر کے اپنے اعلیٰ مقصد کو پایہِ تکمیل تک پہنچا کر ملک کا وقار بلند کیا وہیں اہلِ علاقہ کو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے متعارف کرانے کے لیے ایک ایسے تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی جو دیکھتے ہی دیکھتے کونپل سے تناور درخت بن گیا۔کہوٹہ شہر سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر کلر روڈ پہ ایک گاؤں نوگراں ہے۔ اطراف میں پہاڑیاں ہیں۔ درمیان میں وسیع و عریض لہلہاتے ہوئے کھیت ہیں۔ کھیتوں کے درمیان سے گزرتی سیدھی سڑک گاؤں کو دو حصوں میں تقسیم کر رہی ہے۔صبح کا وقت ہے‘سورج آنکھیں کھول رہا ہے‘ کرنیں فصلوں کے بوسے لے رہی ہیں‘ پرندے چہچہا رہے ہیں‘ تازہ ہوا چل رہی ہے‘ پہاڑیوں سے اترتے شفاف پانی کے ندی نالے اور جھرنے فطرت کے حُسن کو بڑھا رہے ہیں‘گاؤں کی دوچار چھوٹی دکانیں کھل رہی ہیں ’کھیتی باڑی ہو رہی ہے‘ کچھ لوگ گاؤں کی بس میں سوار شہر کا رخ کیے ہوئے ہیں‘ سیدھی سادھی دیہاتی زندگی ہے‘ سڑک کے بائیں کنارے طویل فصیل کے وسط میں شاہی طرز کا بالا قامت دروازہ ہے‘نظر اٹھا کے دیکھیے دروازے کی پیشانی پہ جلی حروف میں تحریر ہے”کہوٹہ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی“ اندر آ جائیں آپ حیرت کدے میں داخل ہو چکے ہیں۔ اندر کی دنیا باہر کے ماحول سے یکسر مختلف ہے۔ یہاں ملک کے زرخیز دماغ جمع ہیں‘ نیوٹران اور فوٹان زیرِ بحث ہیں، کوانٹم کمپیوٹر کا سٹریکچر ڈسکس ہو رہا، اینٹی ماس پہ تبصرے ہو رہے ہیں‘ دھاتوں کو پگھلانے کی تکنیک سکھائی جا رہی ہے‘ الیکٹریکل اور الیکٹرونکس کی باریکیاں سمجھی اور سمجھائی جا رہی ہیں، کیمیکل اور مکینیکل کے امتزاج پہ روشنی ڈالی جا رہی ہے اور فنِ تعمیر کے شوقین جمالیات کو کاغذ پہ بکھیر رہے ہیں۔ کے آئی ٹی کی فصیل ایک سو تینتالیس کنال کو محیط ہے۔اس ایک سو تینتالیس کنال میں موجود عمارات فنِ تعمیر کا شاہکار ہیں۔ دومنزلہ دلکش ایڈمن بلاک کے سامنے موجود اکیڈمک بلاک کا اچھوتا طرزِ تعمیر حیرتوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ایک ہی طرز کی چھ عمارتوں کو آپس میں مسدس ال ضلاعی شکل میں جوڑ دیا گیا ہے۔جی پی ایس کے بغیر متعلقہ کمرا ڈھونڈنا کارِ محال ہے‘ یوں سمجھ لیجیے آئنہ خانہ ہے چارسو لگے آئنوں میں ایک ہی عکس دکھائی دیتا ہے۔ پنجاب‘ سندھ‘بلوچستان اور کے پی کے سے آئے علم کے طالب چار چار منزلہ ہاسٹل کی تین عمارتوں کی بالکونیوں میں کھڑے ہو کے مناظرِ فطرت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ہاسٹل کی کسی ایک عمارت کی چھت سے ادارے کے حدودِ اربعہ پہ نظر دوڑائی جائے تو اک نیا جہاں کھلتا دکھائی دیتا ہے۔سامنے اکیڈمک بلاک کے دونوں جانب کھیل کے وسیع میدان ہیں جن پہ موجود ہلکا ہلکا سبزہ فرشِ زمرد سے کہیں زیادہ چمک رکھتا ہے‘ دائیں طرف دیکھیں تو گلشن کا کاروبار چل رہا ہے یعنی نرسری فام‘ کچھ فاصلے پر بائیو گیس پلانٹ‘ بائیں مڑیں تو خوب صورت مسجد (سائنسی تجربات کے دوران میں کوئی حکمت کی گرہ کھلے تو سائنٹسٹ آ کے سر سجدے میں رکھ دیتے ہیں)‘ ساتھ ہی حسین و دلکش لائبریری ہے جس کی طرزِ تعمیر قابلِ صد تحسین ہے، فٹبال گراونڈ کے دوسرے کنارے ایک شیڈ میں کالج کی بسیں اور دوسری گاڑیاں صف باندھے کھڑی ہیں جو راولپنڈی، اسلام آباد، کلر اور کہوٹہ سے طلبہ و اساتذہ کو لانے لے جانے پہ معمور ہیں۔ ملک کے دیگر صوبوں‘ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے آئے طلبہ اور اساتذہ ہاسٹل میں فروکش ہیں۔پرنسپل صاحب کالج کے دورے پر نکل چکے ہیں اور یہ دوروں کا دور کئی بار چلے گا۔
قسمتِ نوعِ بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں
اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
کہوٹہ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نوگراں ملکی سطح کا تعلیمی ادارہ ہے جو گزشتہ بائیس برس سے مختلف ٹیکنالوجیز میں ڈپلومہ کروا رہا ہے۔معیاری تعلیمی اداروں کی کمی کے پیشِ نظر رواں برس ادارے نے طلبہ و طالبات کے لیے ایف ایس سی کی کلاسز کا اجراء کیا ہے تاکہ انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو معیاری تعلیم کے حصول کے لیے دوسرے شہروں میں نہ جانا پڑے۔ کے آئی ٹی نوگراں میں اس سال ایف ایس سی پری میڈیکل، پری انجئیرنگ اور آئی سی ایس میں داخلے ہو رہے ہیں۔ ماحول مثالی ہے، طلبہ اور طالبات کے لیے علیحدہ علیحدہ کلاسز کا اہتمام کیا گیا ہے اور تجربہ کار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ مہیا کیے گئے ہیں۔کے آئی ٹی نوگراں کا ایف ایس سی پروگرام شروع کروانا یقیناً اہلِ علاقہ کے لیے بڑی خوش خبری ہے۔ یہاں جو معیاری تعلیم کا خلا تھا ‘کے آئی ٹی’ کے اس اقدام سے وہ خلا پُر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ان شاء اللہ بہت جلد کہوٹہ تعلیمی میدان میں بہت آگے دکھائی دے گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں