سانحہ قصور بلا شبہ دنیا کی تاریخ کا بدترین سانحہ ہے ، اس کو اگر ابلیس کا فعل کہا جائے تو شاید ابلیس بھی آپ کے خلاف اعلان جنگ کردے ۔پچیس افراد پر مشتمل گینگ ڈھٹائی سے 2006 سے لیکر آج تک چھ سے سولہ سال کے معصوم بچوں اور بچیوں کو پستول چاقو دکھا کر اغواء کرکے جنسی زیادتی اور ویڈیو بناکر والدین کو بلیک میل کرکے لاکھوں روپے ہتھیاتارہا۔اس واقعہ نے پوری دنیا میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایسی ذلت اور شرمساری سے دوچار کیا جس کی مثال دور دور تک نہیں ملتی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی قوم مردہ ہوچکی ہے ، ہم انسان دکھائی دیتے ہیں لیکن انسانیت ہمارے اندر سے کب کی مر چکی ہے ۔ایمانداری سے دیکھا جائے تو سانحہ قصور میں ہم سب قصوروار ہیں ، ہم نے بچوں کو خوفزدہ کرنے اور جنسی رغبت کے لیے اپنے ارد گرایسا ماحول تخلیق کر رکھا ہے جس میں بچے پروان چڑھ کر نہ صرف والدین کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں بلکہ ہمارے ارد گرد ماحول اور گینگ کا حصہ بھی آسانی سے بن جاتے ہیں ۔سانحہ قصور جیسے کرداراساتذہ ،گیم ٹیچر ، پی ٹی ماسٹر، ڈرائیور، دوکاندار، سی ڈی سینٹر ، نائی ، انٹرنیٹ کیفے کے مالک کی شکل میں ہر گاؤں اور شہر میں پائے جاتے ہیں جن کی بغل میں منظورنظر خوبصورت سا لڑکا ضرور ہوتا ہے جس پر خصوصی التفات اور مہربانی کی جاتی ہے ۔اور وہ قابل قبول صورت لڑکاْ / لڑکی سکول ، محلے اور شہر میں خوف کی سی زندگی گزار رہا ہوتا ہے جومحلے کے اوباش لڑکوں کا نشانہ بھی بنتا ہے ، اور سکول جائے تو کلاس فیلوز تنگ کرتے ہیں ۔اساتذہ کے لیے تو ایسا سٹوڈنٹ ترنوالہ اور سونے کی چڑیا ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے سانحہ پشاورہوا ، 150 سے زیادہ بچوں کوگولیوں سے بھون دیا گیا، سانحہ بلدیہ 270 افراد کو زندہ جلا دیا گیا، سانحہ یوحنا آباد سینکڑوں مکانات اور افارد کو جلا یا گیا،سانحہ لاہور ہوا ، سینکڑوں بچوں کے ساتھ زیادتی کے بعد ان کو بیدردی سے تیزاب سے جلا دیا گیا ،سانحہ باجوڑ ہوا، 80 سے زائد بچوں کو وضو کرتے ڈرون حملے سے ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا، سانحہ سیالکوٹ دو معصوم بھائیوں کو بیدردی سے مار کر ان کی لاشوں کو سڑکوں پہ گھسیٹا گیالیکن ہم اوندھے پڑے رہے ، سوئے رہے ، کہیں سے لاوا نہیں پھوٹا ، ہم پہلے بھی سو رہے تھے، آج بھی سو رہے ہیں لیکن ہم کو کل جاگنا ہو گا۔اس سے پہلے کہ ہمارے یا ہمارے دوست کے بچے اس جیسے سانحے اور گینگ کا شکار ہوں ہم کونہ صرف یکجا ہو کر ان وحشی درندوں اور عصمت کے بیوپاریوں کے خلاف آواز اٹھانی ہے بلکہ قصور واقعہ جیسے واقعات کے مستقل تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات بھی کرنا ہوں گے ۔آپ صرف تھوڑی دیر کے لیے کرسی پہ بیٹھ جائیے ، آنکھیں بند کریں اور اپنی کمائی کو آبزرو کریں ،اگر کمائی میں حرام کیEntrance ہے تو پوری کوشش کریں کہ یہ جلد از جلد بند ہوجائے ، سات سال کی عمر میں بچے کونماز کا حکم دیں۔بچوں کی کمپنی اور ماحول پر نظر رکھیں ،چھوٹے بچوں کو بلا ضرورت گھر سے نہ نکلنے دیں خصوصاً مغرب کے بعد۔گھر میں قرآن کی تلاوت لگائیں / کریں ۔خود بھی مسجد جائیں اور بچوں کو بھی ساتھ لیکر جائیں اور اپنے ساتھ صف میں کھڑا کریں ۔مائیں بچوں پہ دم کرتی رہیں ، سورۃ فاتحہ ،تین قُل ،صبح شام کی دعائیں ۔بچوں کے کارٹونز کی سی ڈیز،کمپیوٹر کی ہارڈڈسک چیک کریں کہ کسی قسم کا قابل اعتراز مواد تو نہیں ۔غیر ضروری USB اور میموری کارڈ نہ لیکر دیں ۔بچوں کو ٹیوشن اور سیپارہ پڑھنے کے لیے دوسروں کے گھر نہ بھیجیں ،اگر ضروری ہو تو تین چار بچیاں گروپ کی شکل میں جائیں اور واپس آئیں ۔بچی کو کسی قیمت پر سہیلی کے گھر رکنے کی اجازت نہ دیں ۔مائیں بچوں کے بیگز،الماری،سرہانہ،بیڈ اور لاکرز کی تلاشی لیتی رہیں ۔بچی کے پاس اضافی موبائیل اور سم نہیں ہونی چاہیے۔والدہ بچی کے پرس ،اور موبائیل پر نظر رکھے اور موبائیل کے contacts چیک کرتی رہے،موبائل فون رات کو سوتے وقت بچے بچی سے لیں اور صبح سکول جاتے وقت اس کو لوٹا دیں ،بچے کا موبائل نمبر آپ کے نام پر ہونا چاہیے اورہر مہینے دو مہینے بعد فرنچائیز سے اس نمبر کی کال ہسٹر ی نکلوائیں ، غیر ضروری اور لیٹ آورز کالز کی باز پرس کریں ،بچوں کو بتائیں کہ اجنبی گاڑی اور موٹرسائیکل سے لفٹ نہ لیں ۔کسی گاڑی والے کو اگر راستہ بتا نا ہے تو گاڑی سے کم از کم دو میٹر کا فاصلہ رکھیں ۔ جو دکانیں گھروں میں یا بازار سے ہٹ کر ہیں وہاں سے بھی کوئی چیز لانے کے لیے بچے کو اکیلا نہ بھیجیں ۔بچوں کے لیے لنچ باکس بسکٹ جوس برگرچپس پانی کی ٹھنڈی بوتل وغیرہ ساتھ دیکرسکول بھیجیں تاکہ وہ بریک ٹائم باہر کسی شاپ پہ نا جا ئیں۔بچوں کی پاکٹ منی پر نظر رکھیں کہ اس کا لائف سٹائل پاکٹ منی سے میچ کرتا ہے؟اگر بچہ ایکدم زیادہ پیسوں کی ڈیمانڈ کرے تو محتاط ہو جائیں،کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کے بچے بچی کے پاس نیا ماڈل موبائل یا مہنگا پرفیوم ہے اور آپ خوش ہو رہے ہیں کہ ان کے دوست کتنے اچھے ہیں جو ان کو اتنے مہنگے تھائف دیتے ہیں ، ایسا نہ ہو ان موبائلز اور پرفیومز کی قیمت بچے کو جسمانی مشقت سے ادا کرنی پڑے ، اآج کل ہر گلی محلے میں بیوٹی سیلون کھل گئے ہیں جہاں بچے جاکر بڑے شوق سے فیشل اور نت نئے سٹائل سے بال کٹواتے ہیں ،نائی کی دکانیں بھی آوارہ لڑکوں اور قوم لوط کے پیروکاروں کا مسکن ہوتی ہیں ، کوشش کریں کسی جاننے والے اور باکردار نائی کے پاس بچوں کو کٹنگ کے لیے بھیجیں یا ایک فیملی کے دس بارہ بچوں کے لیے مہینے میں کسی ایک دن نائی کو گھر بھی بلایا جاسکتا ہے،ہر صبح سکول ،کالج میں کال یا ایس ایم ایس کر کے بچوں کی حاضری چیک کریں ۔بچوں کو گھر میں ڈمبل اور ورزش کا سامان لیکر دیں ۔بچے کی جسمانی ساخت پر نظر رکھیں اس کا وزن کم تو نہیں ہو رہا؟بچوں کی ضروریات کا خیال رکھیں کیونکہ بعض اوقات ہم ان کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کو نظر انداز کردیتے ہیں تو نتیجتاً ان کی نظردوسروں کے ہاتھ اور جیب پر پڑتی ہے جس کا غیر ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔کوشش کریں بچوں کو مصروف رکھیں ، سکول نمازدینی تعلیم قرآن ٹیوشن ورزش وغیرہ ۔اور ان کا ٹائم بھی مانیٹر کیا جائے کہ بچہ کس وقت میں کتنا ٹائم لگاتا ہے یعنی نماز ، ٹیوشن کتنے بجے ختم ہوتی ہے اور گھر کتنے بجے پہنچا ہے ۔بچے بچی کو سمجھادیں کہ کوئی آپ کو ہاتھ لگائے تو ہمیں آکر بتائیں حتیٰ کہ ٹیچر بھی آپ کو ہاتھ نہیں لگا سکتا ۔بچوں کو سختی سے بتائیں کہ کسی کی گود میں نہ بیٹھیں چاہے وہ انکل ہی کیوں نہ ہوں،بچے کو کبھی بھی زبردستی نہ کریں کہ وہ کسی بڑے یا سینئر سے ملے جس کو بچہ ناپسند کرتا ہو اور کبھی بھی اس بالغ یا سینئر سے نہ ملنے دیں جس کو بچہ بہت پسند کرتا ہو،ہنستا ہوا بچہ اگر ایکدم سے خاموش ہوجائے تو سمجھ لیں کچھ سیریس گڑبڑ ہے ،اس سے بہت سارے سوال کریں تاکہ آپ مسئلے کی تہہ تک پہنچ جائیں ، کوشش کریں والد بچے کا اور والدہ بچی کی دوست بن جائے کیونکہ اگر والدین بچے کواقدار نہیں سکھائیں گے تو پھر معاشرہ اپنے حساب سے غلط اقدار سکھائے گا،بچوں کے ٹی وی چینلز کو بھی مانیٹرکریں کہ کس قسم کے پروگرام دیکھتے ہیں ،بچہ اگر اپنی قیمتی گھڑی ، سائیکل ، بائیک، گاڑی ، پرفیوم کسی کو گفٹ کررہا ہے توضرور دال میں کچھ کالا ہے کیونکہ بچے اپنی چیزیں آسانی سے کسی کو نہیں دیتے ،کوشش کریں اپنے کسی قریبی دوست کو بچے کا دوست بنا دیں تاکہ کسی مشکل وقت سے پہلے آپ بروقت مطلع ہوجائیں ،بچے بچی کو کبھی بھی اکیلا رہنے وا لے دوست کے پاس نہ جانے دیں کیونکہ ایسے حضرات بچے کو اپنا ٹھکانہ “ڈیٹ ” کے لیے آفر کرتے ہیں اور وہاں دونوں کی وڈیو بنتی ہے جس کے بعد وہی بچہ بچی بلیک میل ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔یاد رکھیں بچے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں اور ان کو نوچنے سے بھی آپ نے ہی بچا کر رکھنا ہے ۔اللہ تعالیٰ اس سرمایہ عظیم کواپنی امان میں رکھیں اور ان کو والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے ۔{jcomments on}
128