108

کلرسیداں میں پاسپورٹ دفتر نہ بن سکا

پاکستانی سیاسی جماعتیں جو بظاہر نظریات کا پرچار کرتی ہیں۔لیکن ان سب میں ایک بات کامن ہے کہ ان کا کوئی نظریہ نہیں جس ایک نظریے پر یہ سب متفق ہیں وہ ہے سیاسی برادری کے مفادات کا تحفظ ان کے نزدیک عوامی رائے کی کوئی اہمیت ہے نہ عوام کے جان ومال کی۔ عوام کو درپیش مسائل بارے فکر ہے نہ انہیں حل کرنے کی سوچ‘یہ سب جماعتیں سیاست کو خدمت گردانتی اور ہمیں ایسے سہانے خواب دیکھاتی ہیں جن خوابوں کی تعبیر نہیں ہوتی،اندر خانے ایک پیج پر کھڑی یہ جماعتیں عوامی سطح پر ایک دوسرے کی شدید مخالف اور دشمن دیکھائی دیتی ہیں تاریخ سے مخلول کرنا ان کی عادت بن چکا ہے مجھے اپنے نکتہ نظر کے صحیح ہونے پر ہرگزاسرار نہیں ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کے نزدیک ان کی ریا کاری اور ظاہری دشمنی پاکستانی عوام کے پیچیدہ مسئلوں کا حل ہو لیکن یہ سوچ رکھنے والے مہربان اس سوال کا جواب ضرور دیں کہ ان کی عوامی سطح پر لڑی جانے والی لڑائی نے ہمارے پیچیدہ مسئلوں کو حل کیا ہے یا انہیں مزید پیچیدہ بنادیا ہے لیکن ان پاس کے اسکا جواب نہیں ہوگا۔ جواب یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کے نہیں بلکہ عوام کے دردناک حد تک مشترکہ دشمن ہیں کبھی کبھی تو یہ سوچ آتی ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد نے آخر انگریز سامراج کی پتھریلی چوٹی سے ٹکر ہی کیوں لی تھی۔انہوں نے سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے لیے کیوں اپنا لہو بہایا تھا کیوں اذیتیں اُٹھائی تھیں کیوں عذاب بھگتے ہیں کیا یہ وہ آزادی تھی جس کی سزا ہم بھگت رہے ہیں اور ہماری آئندہ نسلیں بھی بھگتیں گی۔ہمارے بااثر لوگ اس ملک کی اعلیٰ ترین مخلوق ہیں جن کی نظر میں عام شہری کیڑے مکوڑوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے ان کی وجہ سے ہماری زندگیاں اندھیروں سے قریب اور روشنیوں سے دور ہیں یہ نہیں چاہتے کہ عوام کو سکون میسرہو یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ آنکھوں دیکھتے ہوئے بھی ہمارے مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔میری آج کی تحریر تحصیل کلر سیداں کے عوام کو پاسپورٹ کے حوالے سے درپیش مشکلات بارے ہے۔کلرسیداں کو 2004 میں تحصیل کا درجہ ملا تھا مشرف دورمیں اقتدار کے گھوڑے پر سوار وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے وزیر قانون راجہ بشارت کی سفارش پر کلرسیداں کو تحصیل بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ 18 برس بیت جانے کے باوجود اس علاقے کے لوگ پاسپورٹ کے لیے کہوٹہ یا راولپنڈی جانے پر مجبور ہیں تحصیل گوجرخان کو راجہ پرویزاشرف کی نظر کرم کے باعث پاسپورٹ دفتر کی سہولت میسر ہے جبکہ اس علاقے سے منتخب ن لیگی ایم این اے چوہدری نثار علی خان جو اپنی جماعت میں ایک مقام رکھتے تھے اور جن کے لیے یہاں پاسپورٹ آفس لانا کوئی زیادہ مشکل نہیں تھا لیکن وہ عوام کو یہ سہولت نہ دے سکے۔صداقت عباسی پی ٹی آئی کے منتخب ایم این اے رہے جو پونے چار سال اقتدار میں مختلف تنظیمی عہدوں پر بھی فائز رہے تھے لیکن انہیں بھی اپنے حلقے کے عوام کی یہ مشکلات دیکھائی نہیں دیں اور شاید آئندہ بھی دیکھائی نہ دیں،کیونکہ ان لوگوں کو عوام کی طرح لائنوں میں لگ کر اپنے کام نہیں کروانے پڑتے۔آسمان سے اتری یہ مخلوق گھر بیٹھ کر فون کال پر اپنے کام کروانے کی طاقت رکھتی ہے ذلیل ہونا صرف ہمارا مقدر بنا دیا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے اس وقت پی پی اور ن لیگ دونوں اقتدار میں ہیں ان کے یہاں سے ٹکٹ ہولڈر اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کرکے کلر سیداں کے عوام کو پاسپورٹ آفس کی سہولت مہیا کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں یہ کام ان کے آئندہ الیکشن میں معاون ثابت ہوگا یاد رکھیں کہ جہاں امیدیں دم توڑتی ہیں وہاں سے آگے معدومیت کا بھیانک خلا شروع ہوجاتا ہے۔جو خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں