ضیاء الرحمن ضیا/کرپشن کے متعلق عالمی درجہ بندی کرنے والے ادارے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں پاکستان میں کرپشن بڑھ گئی ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 180ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 124واں نمبر ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کی 4درجے تنزلی ہوئی ہے۔ 2018میں پاکستان کا نمبر 177واں تھا، 2019میں پاکستان 120ویں نمبر پر آیا جبکہ 2021کی رینکنگ میں پاکستان مزید تنزلی میں گرتے ہوئے 124ویں نمبر پر آگیا ہے۔ ادارے کی طرف سے نیب کے حوالے سے بھی کہا گیاہے کہ نیب نے جتنی رقم برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا وہ اس میں ناکام رہایہ تو اس جماعت کے دور کے حالات ہیں جو کرپشن کے خلاف میدان میں اتری اور اس نے کرپشن کے خلاف ملک گیر تحریک چلا کر انتخابی میدان میں قدم رکھا اور کامیابی حاصل کر کے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی، انہوں نے انتخابات سے قبل لمبے چوڑے دعوے کیے تھے، ان کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ مضحکہ خیز دعویٰ یہ تھا کہ ہم نوے دن میں کرپشن ختم کر کے ملک میں تبدیلی لے آئیں گے لیکن اب اڑھائی سال گزرنے کے بعد وہی کہتے پھرتے ہیں کہ اڑھائی سال میں تو حالات نہیں بدل سکتے حقیقت بھی یہی ہے کہ اڑھائی سال میں ایک ایسے ملک کے حالات مکمل طور پر تبدیل کر دینا ناممکن ہے جس میں ستر سال سے کرپشن کا بازار گرم ہو۔ یہ سب پی ٹی آئی والے بھی جانتے تھے لیکن اس وقت ان پر حکومت کرنے کا جنون سوار تھا جس کی وجہ سے انہوں نے بڑے بڑے وعدے کر کے ووٹ تو حاصل کر لیے لیکن اب خود ہی روتے پھرتے ہیں اور ان وعدوں میں سے کوئی ایک بھی پورا کرنے میں ناکام ہیں۔ رہی یہ بات کہ اتنے قلیل عرصے میں کرپشن میں لتھڑے معاشرے کے حالات بدلنا ممکن نہیں تو یہ بات ہم بھی تسلیم کرتے ہیں اور ہم حکومت سے ان کے انتخابات سے قبل کے وعدوں اور دعووں سے صرف نظر کرتے ہوئے اس بات کا مطالبہ نہیں کرتے کہ اب تک حالات بہتر کیوں نہیں ہوئے؟ لیکن اتنا مطالبہ کرنے کا حق تو ہمیں حاصل ہے کہ اگر مکمل طور پر بہتری نہیں آسکتی تو کم از کم بہتری کی طرف گامزن تو ہو سکتے ہیں، اڑھائی سال کا عرصہ ابتداء کرنے کے لیے تو کافی ہوتا ہے، یہ بتائیں کہ کس شعبے میں بہتری آنے لگی ہے، کون سا وعدہ ایسا ہے جو وفا ہونے کے قریب ہے یا ایسی سطح پر ہے کہ ہم آئندہ کچھ عرصہ میں اس کے وفا ہونے کی امید رکھیں؟ یقینا ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ کیونکہ کوئی وعدہ کوئی وعویٰ پورا نہیں ہونے والا اور نہ ہی مستقبل قریب بلکہ بعید میں بھی پورا ہوتا نظر آرہا ہے۔ وزیراعظم اور وزراء تو اپنی پرانی عادت کے موافق ہر محفل میں آئندہ کچھ عرصہ میں بہتری کی خوشخبری سنا دیتے ہیں لیکن وہ عرصہ بھی گزر جاتا ہے اور سب کچھ ویسے کا ویسا ہی بلکہ پہلے سے بھی خراب ہو جاتا ہے۔ ملک میں کرپشن کا بھی یہی حال ہے کہ کم ہونے کی بجائے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ ہر سال پاکستان کا نمبر عالمی فہرست میں نیچے جا رہا ہے اور اگر یہی حال رہا تو فہرست کے اسفل سافلین (سب سے نچلے درجے) میں چلا جائے گا اور ہم سوڈان وغیرہ کو دیکھ کر رشک کر رہے ہوں گے۔ نہ جانے حکمران کر کیا رہے ہیں؟ ان کی کارکردگی ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔ ان سے باتیں کرانے لگیں تو ایک ایک پریس کانفرنس پر کئی کئی ماہ بھی لگا سکتے ہیں، دوسروں پر کیچڑ اچھالنے پر آجائیں تو سر سے پاؤں تک کیچڑ میں لت پت کردیں، الزامات کی بوچھاڑ میں انتہائی مہارت رکھتے ہیں، ایک ایک وزیر، ایک ایک مشیر ایسی ایسی باتیں گھڑ لاتے ہیں کہ سننے والے دھنگ رہ جائیں لیکن کارکردگی دیکھیں تو صفر۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے ان کے تمام وعدوں کا پردہ چاک کر دیا ہے اور وزراء کے تمام دعوے شیشے کی طرف صاف کر دیے ہیں۔ کرپشن کسی بھی معاشرے کے لیے ناسور ہے جس کی وجہ سے وہ معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، کرپشن زدہ معاشرہ پوری دنیا میں ذلت آمیز نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور ہمارے ملک میں جتنی کرپشن پائی جاتی ہے اس نے تو عام شہریوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ٹرانسپرنسی کی رپورٹ آتے ہی ہمارے وزراء نے ماضی کا جھوٹ دہراتے ہوئے فوراً کہا کہ یہ گزشتہ حکومتوں کے دور کے اعداد و شمار ہیں لیکن ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے وضاحت بھی کر دی کہ یہ آپ کے ہی کارنامے ہیں۔ اڑھائی سال گزرجانے کے بعد بھی یہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ گزشتہ حکومتوں پر ڈالنے سے باز نہیں آرہے۔ کرپشن ختم کرنے کے وعدے کرنے والوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ خدا کا خوف کریں اور اب اپنی نااہلیوں کو چھپانے کے لیے گزشتہ حکومتوں پر الزامات کا سہارا لینا چھوڑ دیں اور کچھ کارکردگی بھی دکھائیں۔
206