269

چلتے پھرتے لوگ

شاہد جمیل منہاس کی آٹھویں کتاب چلتے پھرتے لوگ اس حوالے سے منفرد اور اہمیت کی حامل ہے چونکہ مصنف نے ان شخصیات کو قلم وقرطاس کی زینت بنایا جنھوں نے محنت کے ذریعے معاشرہ میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ ہمارے ہاں عموماً ایسے ہوتا ہے کہ ایسی شخصیات کو ان کی حیات ہی میں خراج تحسین پیش کرنے میں بخل سے کام لیتے ہوئے ان کی موت کا انتظار کیا جاتا ہے

جب وہ زمین کی گہرائیوں میں لحد کی زینت بن ہوچکے ہوتے ہیں تو پھر ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے تقریبات تعزیتی ریفرنس کا انعقاد اخبارات اور میگزین میں کالمز و مضمون لکھے جاتے ہیں لیکن شاہد جمیل منہاس نے اپنی کتاب چلتے پھرتے لوگ میں پوٹھوہار دھرتی کے ایسے ہونہاروں کو زندگی میں خراج تحسین پیش کرکے ان کی حوصلہ افزائی کر کے قارئین کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے

کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی محنت کو کبھی رائیگاں نہیں کرتا اس کی محنت کا متبادل لازمی دیتا ہے انسان کو کامیابی کے لیے آخری حد تک کوشش کرنی چاہیے پھر نتیجہ اللہ تعالیٰ کے در پر چھوڑ دینا چاہیے۔ چونکہ شاہد جمیل منہاس خود بھی ایک حساس طبیعت اور لوگوں سے ہمدردی رکھنے والی شخصیت کے مالک ہیں اسی مناسبت سے انہوں نے معاشرہ کے مظلوم طبقہ کی آواز بلند کرتے ہوئے ان کا دست و بازو بننے کی کوشش کی ہے معاشرہ کے پسے ہوئے لوگوں کی وہ نہ صرف اپنے ہاتھ سے عملی مدد کرتے ہیں

بلکہ قلم کے ذریعے پڑھنے والوں کو انکی مدد کرنیکی ترغیب دلاتے ہیں۔ ایک مرتبہ دسمبر یخ بستہ سردی کے موسم میں صبح سویرے میرے آفس میں تشریف فرما تھے کہ اسی اثناء میں علاقہ کا ایک غریب شخص حاضر ہوا اس نے قرآن پاک کی قرات کی۔ میں دیکھتا ہوں کہ شاہد بھائی کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی جاری تھی۔ میں نے ٹشو دینے کی کوشش کی لیکن انہوں نے ٹشو کو پکڑنے کی بجائے پاؤں میں پہنے اچھی کوالٹی کے بوٹ اتار کر اس غریب کو پیش کر دئیے۔ میں نے کچھ بولنے کی کوشش کی تو گویا ہوئے کہ ہماری خیر ہے

لیکن ان برزگوں کے پاؤں بوٹ میں ہونے چاہیے۔ اس طرح درد دل کا جذبہ رکھتے ہوئے انہوں نے کتاب میں اس خاتون کا بھی ذکر کیا ہے جس کے تینوں بیٹے ٹریفک حادثہ میں اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن خاتون نے بھکاری بننے کی بجائے روڈ کنارے سبزی و فروٹ کا سٹال لگا کر اپنے پوتے و پوتیوں کے لیے روزگار کمانے کو فوقیت دی چونکہ شاہد جمیل منہاس کا تعلق منہاس برادری سے ہے شاہد اپنے خاندان و قبیلے کے ساتھ زیادہ رغبت ہے۔ اس لیے کتاب میں انہوں نے اپنے خاندان کی نمایاں شخصیات کو بھی زیر بحث لا کر خاندان کا قرض اتارنے کی کوشش کی ہے چونکہ ماہر تعلیم اور متعدد کتابوں کے مصنف راجہ محمد عارف مہناس کا تعلق بھی ان کے قریبی خاندان سے ہے

۔ مجھے لگتا ہے شاہد جمیل منہاس نے بھی ان سے انسپائر ہوکر شعبہ تعلیم اور قلم اور قبیلے کو اپنا اوڑھونا بچھونا بنایا۔ ابھی آٹھویں جماعت کے طالب علم ہی تھے کہ نعتیہ شعر لکھے جن کو پذیرائی ملی اور پھر قلم ایسی رواں ہوئی کہ ان کی آٹھویں کتاب ‘چلتے پھرتے لوگ” بھی مارکیٹ میں آنے والی ہے امید واثق ہے قارئین کے لیے ان کی یہ کاوش بھی مفید ثابت ہو گی انشاء اللہ۔شاہد جمیل منہاس سے میری پہلی ملاقات کی وجہ بھی ان کی تحریریں بنی یہ ایک دہائی قبل کی بات ہے ہفت روزہ پنڈی پوسٹ کو شروع ہوئے ابھی دو سال ہی گزرے تھے کہ ہفتہ میں ایک بار روزنامہ نوائے وقت میں ان کا کالم پڑھنے کو ملتا۔

ان کی طرز تحریر میں احساس اور اپنائیت محسوس ہوتی تو دل میں ان سے ملنے کی تشنگی پیدا ہوئی۔ فون پر رابطہ ہوا کچھ دنوں کے بعد آپ دفتر تشریف لائے۔ پہلی ہی ملاقات میں ویسے ہی پایا جیسے وہ کالموں میں خلوص و پیار کی باتیں نچھاور کرتے ہیں۔ عملی زندگی میں بھی آپ ایسے ہی پائے جاتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ ان کا قلم و قرطاس کا ناطہ تاحیات جاری و ساری رہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں