فیصل صغیر راجہ
گزشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی کیلئے جس قدر میدان ہموارکیاگیاشاہد ہی کسی اور کے حصے میں ایسی نرمی آئی ہویاآئندہ آئے گی۔ عمران خان کے حریفوں کوآٹے سے نمک کی طرح نکال باہرکیا گیا۔ ن لیگ تو لڑتی ہی چلی گئی آئے روز لیگی رہنما عدالتوں میں گھسیٹے گئے کارکنان پر توہین عدالت کے کیس بنے میڈیا میں بھی ن لیگ اور پی پی کا احتساب اس قدر سختی سے ہوا کہ ان کا کچا چھٹا کھول کر رکھ دیا۔ یہاں تک کہ ذاتی محلوں سے بھی گریز نہ کیا گیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ دوسری پارٹیوں سے بھاگنے والے ٹکٹ لے اڑے کل تک کسی اور پارٹی کے مرکزی رہنما آج پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما قرار پائے اور نئے پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق اگر پی ٹی آئی اس بار ڈیلور نہ کرسکی تو شاہد پھر کبھی برسراقتدار نہ آسکے تاحال موجودہ حکومت ہر شعبہ میں ناکام نظر آرہی ہے شاہد 100دنوں والا ٹارگٹ 100ہفتوں میں پورا ہوجائے! پی ٹی آئی کی اندرونی سطح پر دھڑے بندی بھی موجودہ حکومت کیلئے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ اس پر پھر کبھی بات ہو گی!تحصیل کلرسیداں میں بھی عرصہ سے پی ٹی آئی دھڑے بندی کا شکار ہے بہت کوشش کی گئیں مگر ہر کوشش ناکام ہوئی تا حال بھی پی ٹی آئی کلرسیداں میں دھڑے بندی موجود ہے تینوں دھڑے گاہے بگاہے اپنی علیحدہ موجودگی کا احساس دلاتے نظر آتے ہیں گزشتہ بلدیاتی الیکشن سے قومی انتخاب کے ٹکٹ کی دوڑ تک موجودہ کمیٹیوں کے فوکل پرسنز اور ہر ممبران اسمبلی کی پسند نا پسند نے بھی ساجد جاوید،حافظ سہیل اشرف ملک، راجہ اظہر اقبال، شیخ امتیاز راجو،آفتاب جنجوعہ، سید وقاص حیدر ایڈووکیٹ جیسے معاملہ فہم رہنماؤں کی موجودگی میں اگر دھڑے بندی ختم نہ ہو سکی اور کارکنان کے تحفظات دور نہ ہوسکے تو آئندہ ممکن نہیں، یہ پی ٹی آئی قیادت کیلئے لمحہ فکریہ ہے پرانے ورکرزموجودہ صورتحال کے پیش نظر نالاں نظر آتے ہیں اور جماعت کی مقبولیت میں کمی واقع ہورہی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عارنہیں کہ تمام یہی سیاسی جماعتیں نظریاتی کارکنان کو نظر انداز کررہی ہیں ۔مگر تحصیل کلرسیداں ہر سطح پر پی ٹی آئی کا امیج بری طرح متاثر ہوا ہے۔ رہنماؤں اور حقیقی ورکرزکو اب خود نمائی کے خول سے نکل کر عام کارکن سے ملنا ہوگا ورنہ موجودہ بلدیاتی الیکشن میں رخ تبدیل ہوسکتا ہے!
88