86

پیپلز پارٹی ضلع راولپنڈی کی تباہی/ راجہ غلام قنبر

ضلع راولپنڈی سے پیپلز پارٹی نے 2002کے انتخابات میں تین قومی اور چار صوبائی سمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ 2008کے انتخابات میں پی پی پی نے ایک قومی اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ انہی انتخابات میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر تین قومی اور چار صوبائی اسمبلی کی نشستیں پی پی پی کے توسط سے ضلع راولپنڈی کے حصہ میں آئیں۔جبکہ سینیٹ میں بھی ایک نشست پی پی پی نے ضلع راولپنڈی کو دی۔اس دور حکومت میں بینظر انکم سپورٹ پروگرام کی چئیرپرسن شپ.بیت المال کی چیئرمین شپ،وفاقی وزارت پانی وبجلی،انفارمیشن، قانون،وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور یہاں تک کہ پوٹھوہار کا پہلا وزیر اعظم بھی پی پی پی کے توسط سے ضلع راولپنڈی کا مقدر بنا۔ان تمام نوازشات کے باوجود پی پی پی 2013کے انتخابات میں ضلع راولپنڈی کی سات قومی اور چودہ صوبائی نشستوں میں سے ایک بھی بھی نشست پر کامیابی حاصل نہ کر سکی۔شکست و ریخت کا یہ سلسلہ یہاں ہی نہیں رکا بلکہ سابق دور حکومت میں پانچ سال اقتدار کا مکمل مزہ لینے کے بعد دو سابق ممبران صوبائی اسمبلی طارق کیانی اور کرنل شبیر اعوان اس مشکل وقت میں پی پی پی کو داغ مفارقت دے کر پاکستان تحریک انصاف میں جا چکے ہیں۔جبکہ دوبار کے ٹکٹ ہولڈر حلقہ پی پی پانچ بیرسٹر ظفر اقبال چوہدری سے بھی تحریک انصاف کا وفد ملاقات کر چکا ہے ۔اس ملاقات میں بیرسٹر ظفر اقبال چوہدری کو باقاعدہ تحریک انصاف میں شمولیت کی دعوت دی۔یا د رہے کہ بیرسٹر ظفر اقبال چوہدری کا حلقہ پی پی 5میں برادری کا کوئی ووٹ بھی نہ تھااور نوارد ہونے کے باوجود پی پی پی کارکنا ن نے بیرسٹر ظفر اقبال کو 2002کے انتخابات میں تیس ہزار کے قریب ووٹ سے نوازا ۔بدقسمتی سے بیرسٹر ظفر اقبال اڑہائی سو ووٹ کے معمولی فرق سے شکست کھا گئے۔2008کے انتخابات میں بیرسٹر ظفر اقبال کے عدم رابطہ کے باوجود پی پی پی قیادت نے فارمولہ کے مطابق پھر بیرسٹر ظفر کو ٹکٹ سے نوازا اور ان انتخابات میں بیرسٹر ظفر کو سابقہ انتخابات کی نسبت اڑہائی ہزار سے زائد ووٹ دیئے۔ بیرسٹر ظفر اقبال کا تعلق تحصیل کلرسیداں سے ہے۔ پی پی پی کے ٹکٹ کے توسط قیوم بٹ،مرحوم چوہدری خالداور کرنل شبیر اعوان نے ایوان تک رسائی حاصل کی۔قارئین کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ قومی انتخابات کیساتھ ساتھ بلدیات میں بھی پی پی پی کا پلڑہ بھاری رہا2005کے بلدیات میں تحصیل کلرسیداں میں پی پی پی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی لیکن اندورنی اختلافات کی وجہ سے تحصیل نظامت پی پی پی حاصل نہ کر سکی۔
تحصیل کلرسیداں سے کرنل شبیر اعوان جو حلقہ پی پی 5سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور پانچ سال تک ممبر صوبائی اسمبلی رہے۔ سابقہ انتخابات میں شکست کے بعد سے کرنل شبیر اعوان کو پارٹی قیادت سے ’’اصولی‘‘ اختلاف پیدا ہو گیا اور اسی اصولی اختلاف کی بنیاد پر کرنل شبیر آج کل پی ٹی آئی میں ہیں اور آمد ہ انتخابات میں قومی اسمبلی کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن ابھی ’’حلقہ‘‘ کا چناؤ باقی ہے۔پچھلی سطور میں بات ہوئی ہے کہ پی پی پی کے سابقہ دور حکومت کی تشکیل کے بعد ضلع راولپنڈی پر سرکاری عہدہ جات کی ایک بارش ہوئی لیکن اس سب کے باوجود 2013کے انتخابات میں ضلع راولپنڈی سے ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکی۔ پی پی پی قیادت ’’دھاندلی‘‘ کا نعرہ لگا کر اس شکست سے پہلو تہی کر سکتی ہے مگرزمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔راجہ پرویز اشرف وزارت اعظمٰی سے قبل وزیر رہے اس تما م عرصہ میں ان کی تما م تر توجہ کا مرکز گوجرخان ہی رہا ہے۔اس تمام دور حکومت میں پارٹی کی تنظیم سازی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔تنظیمی کارکردگی کا یہ حال رہا کہ کرنل شبیر اعوان جو کہ ضلع راولپنڈی کے جنرل سیکرٹری تھے اپنے دوران جنرل سیکرٹری شپ میں کرنل شبیر نے ایک دو سے زائد تنظیمی اجلاسوں میں شرکت نہ کی چہ جائیکہ وہ اپنی تنظیمی ذمہ داری کی بنیاد پر کوئی اجلاس بلاتے تاوقتیکہ ان سے یہ عہدہ لے لیا گیا۔شوکت عباسی جیسے متحرک شخص کو تین سال کے لگ بھگ بے اختیار صدر رکھا گیا اور رات کے اندھیرے میں ان کو تبدیل کر کے غلام مرتضٰی ستی کو ضلع کا نیا صدر نامزد کر دیا گیا۔مرتضٰی ستی تاحال ضلع کی صدارت پر متمکن ہیں اور پی پی پی کے زوال کو مہمیز کرنے کی از حد کاوشیں کر رہے ہیں۔موجودہ ضلع جنرل سیکرٹری راجہ قمر مسعود کو پونے دوسال قبل نامزد کیا گیا۔راجہ قمر مسعود یونین کونسل چوآ خالصہ کے ہر انتخاب میں فاتح اور سابق تحصیل صدر راجہ ریاست کے فرزند ہیں۔ راجہ قمر مسعود بھی انتخابات 2013کے بعد منظر عام سے غائب اور انگلینڈ میں مقیم ہیں۔راجہ قمر مسعود کی عدم فعالیت پیپلز پارٹی کے لئے پریشان کن ہے ان کی یہ عدم فعالیت پی پی پی کے لئے بالعمو م اور ان کے خاندان کے حوالے سے بالخصوص انہتائی زیادہ نقصان دہ ہے۔پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کو پنجاب اور ضلع راولپنڈی پر خصوصی توجہ دینی ہو گی تاکہ پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کیا جا سکے۔اس حوالہ سے اولین ترجیح پارٹی قیادت کی یہ ہونی چاہیئے کہ فی طور پر ضلع قیادت کو تبدیل کر کے متحرک اور نظریاتی وژن رکھنی والی شخصیات کو سامنے لایا جائے تاکہ نئی قیادت تنظیمی فعالیت اور اسٹڈی سرکلز کے ذریعے پارٹی کو متحد ومنظم کر کے دوبارہ کامیابی کی طرف گامزن کیا جائے۔ یاد رہے کہ اگر پارٹی قیادت کی یہی روش رہی تو پارٹی کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس زبوں حالی کے دور میں بھی تحصیل کلرسیداں کے صدر راجہ جاوید لنگڑیال،جنرل سیکرٹری اعجاز بٹ، بزرگ راہنما شریف بھٹو،چوہدری زین العابدین عباس،نصیر بھٹی،یاسر بشیر راجہ اور سابق ایم پی اے چوہدری خالد مرحوم کے بھتیجے چوہدری ظہیر کافی متحرک ہیں۔یہ افراد پچھلے تین میں تین ماہانہ میٹنگز کرچکے ہیں جو ان کی فعالیت کا اظہار ہے۔{jcomments on}

 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں