124

پولیس کے روپ میں انسانی جان کے دشمن

طالب حسین آرائیں/فیصلے کی آزادی اور پیسے کا حصول انسان کو خود غرض بنا دیتا ہے بعض لوگوں کا مطمع نظر صرف ذاتی انا کی تسکین اور چودھرہٹ ہوتی ہے لیکن یہ خام خیالی اپنی حقیقت کو خود ہی بے نقاب کرڈالتی ہے لیکن تب تک پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہوتا ہے اور پیچھے صرف پچھتاوے کا دکھ ہی رہ جاتا ہے۔کسی کے طاقت ورہونے یا کسی کے کمزور ہونے میں انسان کا اپنا کوئی کمال نہیں ہوتا یہ سب قدرت کی طرف سے ہوتا ہے مکمل تو یہاں کچھ بھی نہیں مگر اپنے ادھوراپن سے بے خبر لوگ اپنی طاقت کا استعمال کرکے انسانوں کی زندگی کا دائرہ تنگ کیے ہوئے نظر آتے ہیں۔گوجرخان پولیس اسٹیشن میں رونما ہونے والے تشدد کے تازہ واقعہ میں الیاس نامی شخص کی موت وطن عزیز میں اختیار کے بے جا استعمال کی واضع مثال ہے۔کس طرح ایک سب انسپکٹر اپنے کندھے پر لگے اسٹار کی طاقت کا غیر قانونی استعمال کرتے درجن بھر افراد کے سامنے ایک شخص کو۔بغیر کسی اندراج مقدمہ۔بغیر کسی درخواست۔بغیر ورانٹ گرفتار کرتا ہے۔سولہ روز تک اسے اپنے عزیز و اقارب سے ملنے نہیں دیا جاتا اس دوران اس پر اس قدر بے رحمانہ تشدد کیا جاتا ہے کہ اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔اس پر مزید افسوس ناک صورتحال یہ کہ مذکورہ سب انسپکٹر اپنی جان بچانے کے لیے مقتول کی نعش کو باہر پھینک کر اسے لاوارث لاش ثابت کی ناکام کوشش کرتا ہے۔کیا ایسا شخص انسان کہلانے کے لائق ہو سکتا ہے۔ لواحقین کی جانب سے متوفی کے جسم کی تشدد شدہ حصوں کی کچھ تصاویر میڈیا کو بجھوائی گئی ہیں۔ زیادہ تر تصاویر اس قدر اذیت ناک ہیں کہ انہیں تحریر کا حصہ بنانا ناممکن ہے۔تصاویر پر تشدد کے نشانات دیکھ کر سب انسپکٹر حسنین کے درندہ پن کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔گوجر خان اور گرد ونواح میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ گوجر خان پولیس اسٹیشن کے اہلکاروں نے مبینہ طور پر اپنے اپنے غیر قانونی نجی عقوبت خانے بنا رکھے ہیں جہاں قانونی اور غیر قانونی طور پر گرفتار افراد پر تفتیش کے نام پر اس طرح بہیمانہ تشدد کیا جاتا ہے۔مجھے حیرت ہے کہ جب ایک عام آدمی ان ٹارچر سیلز بارے واقفیت رکھتا ہے تو کیا سیاسی رہنماءان بارے لاعلم رہے ہوں گے تصاویر کو دیکھ کر تھانہ گوجر خان کے سب انسپکٹر حسنین کی درندگی کا احساس کیا جاسکتا ہے۔مقدمہ درج ہونے کے بعد سے مذکورہ سب انسپکٹر منظر سے غائب ہوچکا۔سوال یہ ہے کہ جب واقعہ منظر عام پر آیا اور مقتول کے لواحقین کی جانب سے اس میں سب انسپکٹر کو موت کا ذمہ دار قرار دیا تو ایس ایچ او کی جانب سے مذکورہ سب انسپکٹر کو فوری طور حراست میں کیوں نہیں لیا۔فیصلوں کے لیے پنجائیت سجانے والے سیاسی وسماجی رہنماو¿ں نے اس پرکیوں غور نہیں کیا۔کہ بات چیت اور مذاکرات کی طوالت واقعہ میں ملوث افراد کو فرار کا راستہ فرا ہم کر سکتے ہے۔مقدمہ اندارج میں بھی کافی جھول رکھے گئے ایس ایچ او جس کی ناک کے عین نیچے یہ سب کچھ وقوع پذیر ہوا اس کو ملزم نامزد نہیں کیا گیا۔جبکہ اسے ملزم حسنین کے ساتھ مرکزی ملزم نامزد کیا جانا چاہیے تھا۔کوئی بھی شخص ان تصاویر کو دیکھ کر پولیس اہلکاروں کے لیے دل میں ذرا برابر بھی رحم کے جذبات نہیں رکھتا۔سوچ کر ذہن میں ایک طوفان اٹھتا ہے کہ مقتول کس بے چارگی سے زندگی کی بازی ہارا ہوگا۔کس طرح ان سنگدل اور سفاک اہلکاروں سے رحم کی بھیک مانگتا رہا ہوگا۔لیکن میرے سماج کے وہ لوگ جن کے دل پتھر کے اور سوچ طاقتور کی پشت پناہی پر ٹکی ہوئی ہے انہیں اس سے غرض نہیں۔مقدمہ درج ہوچکا۔انکوئری کے لیے نامزدگی بھی ہوچکی۔کاروائی کا آغاز بھی کردیا گیا۔لیکن مجھے بحیثت عوام متآثرہ خاندان کو انصاف ملنے کی توقع نہیں۔بس چند روز صرف چند روز انتظار کریں پھر اطلاعات ملیں گی کہ ہمارے معززین مقتول کے ورثاءکو خون بہا کی رقم پر راضی نامہ کرنے کی آفر کر رہے ہیں۔اس کے لیے منت سماجت کے ساتھ۔دھونس دھمکی بھی ہوگی۔کیونکہ ایسے لوگوں کی چودھرھٹ انہیں لوگوں کے دم سے ہوتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انکوئری افیسر معاملے کی طے تک پہنچے کہ مذکورہ سب انسپکٹر کس کی بیگار دیتے ہوئے اس حد تک گیاکہ اس کے ہاتوں اس شخص زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا؟؟۔الیاس کی گرفتاری کے وقت پولیس موبائل کے ساتھ دو پرائیویٹ گاڑیاں کس کی تھیں ممکن کہ یہ لین دین کا سیدھا سادہ معاملہ نہیں ہے۔دعا ہے رب کائنات انکوئری افیسر کو حق وسچ کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ سامنے ایک جانب مظلوم ہیں تو دوسری جانب پیٹی بند….!

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں