ہمارے مذہب میں کسی صورت میں بھی داڑھی والا اور داڑھی کے بغیروالا برابر نہیں ہو سکتے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ان دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں تو وہ سراسر غلط ہے۔
اسی طرح با پردہ اور بے پردہ یا زیادہ پردہ دار اور کم پردہ دار خواتین کبھی برابر نہیں ہو سکتیں۔ داڑھی والے مرد اور باپردہ خواتین کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔
اگر میں باریش مرد نہیں ہوں تو مجھے ایسا کوئی جواز تلاش نہیں کرنا چاہیے کہ جس سے میں یہ ثابت کرنے کی کو شش کروں کہ خدا نخواستہ داڑھی نہ رکھنے سے یا رکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
داڑھی تو اس نبی ؐ کی سنت ہے کہ جس کے لیے کل کائنات بنائی گئی۔ اس کائنات کی خوبصورتی اور حسن اللہ تعالیٰ نے اس انداز میں پیدا ہی نہیں کرنا تھا اگر نبی ؐ کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا۔
لہذا نبیؐ کی ہر سنت پر میری جان قربان ہے۔ جب پردے کا حکم ہوا تو اہل اسلام خواتین نے نا محرم کے سامنے جانے سے پہلے ہمیشہ پردے کا اہتمام کیا اور ایسانہ کرنے والی کو گنہگار ٹھہرایا گیا۔ ہمارے آج کے معاشرے میں بھی ہماری مائیں بہنیں اور بیٹیاں اکثر نہیں تو کافی مقدار میں خواتین پردے کا اہتمام کرتی ہیں
جو یقینا ان خواتین کے مقابلے میں اللہ کی نظر میں افضل ہیں جو بے پردہ خواتین ہیں یا کم پرداہ دار ہیں۔ معاشرہ جوں جوں جدیدیت کی طرف جارہا ہے برائیاں اور اسلام سے دوری زیادہ ہوتی جارہی ہے۔ پچھلے دور میں ایک پڑھا لکھا مرد ایک اچھا انسان اور ایک بہترین مسلمان بھی ہوا کرتا تھا۔
لیکن آج اس دنیاوی ترقی نے ہمارے وسائل میں جہاں اضافہ کیا ہے وہاں مسائل ان سے کئی گنا زیادہ ہو گئے ہیں۔ یاد رہے کہ جن مردو خواتین کے حوالے سے یہ سب لکھا جارہا ہے
ان میں سب سے پہلے میں خود کو پیش کرتا ہوں اور اس کے بعد اپنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی بات کروں گا۔ میرے اپنے گھر میں موجود ہر خاتون سے اور اس اسلامی معاشرے کا دعوہ کرنے والی ہر بہن بیٹی سے میرا ایک ہی سوال ہے وہ یہ کہ”یہ کون سا اسلام ہے
کہ اپنے گھر اور محلے میں آپ پردے کا باقاعدہ اہتمام کرتی ہیں۔اذان ہوتی ہے یا تلاوت کلام پاک کی آواز کان میں پڑتی ہے تو ہماری خواتین فوراً سر سے اترا ہوا دوپٹہ یا چادر سر پر اوڑھ لیتی ہیں۔ بہت اچھی بات ہے کہ یہ کم از کم غیر مذہب اس وقت یہ محسوس کرتے ہیں
کہ یہ سب مسلمان خواتین ہیں۔ اور جیسے ہی اذان ختم ہوئی تو سر سے چادر یا دوپٹہ ایسے اتار پھینکا جاتا ہے کہ جیسے کوہ ِ گراں اس کے سرپر کسی نے رکھ دیا ہو اور پھر اچانک اس سے آزادی مل گئی ہو۔ ہماری خواتین جو روزمرہ کے معاملات میں پردے کا خاص اہتمام کرتی ہیں۔
صبح سے لے کر شام تک با پردہ رہتی ہیں۔ لیکن خاندان میں کوئی شادی کی تقریب ہو تو وہا ں یہ خواتین نا محرم مردوں کے سامنے بے پردہ ا ور غلط اور بے ڈھنگے لباس میں ایسے پھر رہی ہوتی ہیں
جیسے انہوں نے کبھی پردے کا اہتمام کیا ہی نہ ہو۔ میرا ان خواتین سے پھر ایک سوال ہے کہ آپ میں اور پردے کا اہتمام نہ کرنے والی خاتون میں کیا فرق رہ جاتا ہے جب آپ اپنے گھر اور گلی محلے یا دفتر میں با پردہ رہتی ہیں لیکن جب نئے اور نامحرم مردوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے
تو اس وقت پردے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور وہاں بے پردگی کا مظاہرہ کر کے اپنی ہی ساری محنت پر پانی پھیر دیا جاتا ہے۔ اور یہی اسلام ہے اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ اس کا پردہ نہیں بلکہ دکھا وہ ہے جس کی سزا ہے نہ کہ جزاء۔ فرمایا گیا ہے کہ اے ایمان والو اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اللہ کی ذات انسان کے زرہ برابربھی اچھے فعل کا اجر ضرور دیتی ہے۔لہذا جو خواتین جتنا زیادہ پردے کا اہتمام کرتی ہیں اتنا زیادہ اجر پائیں گی۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ ان خوتین کی محنت اور مشقت کا کیا ہوگا کہ جو سالہا سال باپردہ رہ کر اچانک ایک ہی شادی کے فنکشن میں اس قدر بے ہودگی کا مظاہرہ کرتی ہیں
کہ لوگوں کے ذ ہنوں میں بے شمار سوالات جنم لے لیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک TV چینل کے ایک پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوا تو میرے دفتر سے باہر نکلتے ہوئے کچھ نئے چہروں والی خواتین پر میری نظر پڑی تو پتہ چلا کہ یہ وہ ہماری بہنیں ہیں جو کہ گزشتہ کئی ماہ سے ہمارے پاس کام کر رہی ہیں
اور گھر سے باہر پردے کا خاص اہتمام کرتی ہیں اس لئے کم از کم یہ میرے علم میں نہیں تھا۔ معلوم ہوا کہ آج برقعہ یا سکارف کے بغیر اس لئے آئی ہیں کہ ساری دنیا نے یہ پروگرام دیکھنا ہے
لہذا کسی کو پتہ تو چلے کہ یہ کون ہیں۔اسلام اور شرم و حیاء عورت کے دل میں ہونا چاہیے ورنہ سب بے کار باتیں ہیں۔اس دن ان خواتین نے بھی ان سے اس حرکت کا جواب ضرور مانگا ہو گا جو روٹین میں پردے کا اہتمام نہیں کرتیں۔ میرا یہ آج کا مو ضوع گھر گھر کی کہانی ہے۔
یہ کسی خاص طبقے کا موضوع نہیں ہے۔ ہمارے اس حلقہ احباب میں کچھ خواتین ایسی ہیں کہ جو ہر وقت سکارف میں رہتی ہیں اور انکی یہی عادت اچھی لگتی ہے
لیکن جب بھی کوئی شادی بیاہ کی تقریب ہوئی تو ان کو سکارف کے بغیر ہی دیکھا اور تب وہ بری لگتی ہیں۔دین اسلام کی خوبصورتی صرف اور صرف خلوص دل اور صاف نیت کے ساتھ کام کرنے سے بنتی ہے۔ دکھاوے کے عنصر سے دور رہنے پر زور دیا گیا ہے ایک عورت کو اپنے باپ، شوہر یا بھائی سے ڈر کر پردہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اسے اس رب سے ڈر کر اور آخرت کی فکر کر تے ہوئے اسلام کے اس حکم کی تعمیل کرکے با پردہ رہنا چاہیے۔ جب تک خدا کا خوف نہ ہوگا تب تک پردہ بے معنی ہے۔
انسان کی تخلیق سے بڑھ کر خدا کی کوئی تخلیق نہیں ہے۔ اسی لیے تو انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے۔ عورت کے بناؤ سنگار پر اسلام میں کوئی پابندی نہیں ہے۔
لیکن حکم یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر کے لیے بنے سنورے یا پھر عورت عورتوں کے ہجوم میں بناؤ سنگھار کرے۔ لیکن جب ایک عورت اپنے کسی قریبی رشتے کو خوش کرنے کے لیے پردہ کرتی ہے اور خدا کو ناراض رکھتی ہے
تو پورے کے پورے معاشرے پر اسلامی اثرات ماند پڑ جاتے ہیں۔ باشعور اور اسلامی روایات کی پابند خواتین کو دکھ پہنچتا ہے جب کوئی عورت اپنے باپ، شوہر یا بھائی سے ڈر کر پاکباز بننے کی کوشش کرتی ہے۔ دیکھا جائے تو سب سے پہلے ایسی خواتین خود کو دھوکا دے رہی ہوتی ہیں۔
ایسے پردے سے بہتر ہے کہ اپنے پاکستان کے روسم و رواج کے مطابق ایک عورت باپردہ رہنے کی کوشش کرے اور کسی صورت میں بھی خود کو بے حد پاکباز ظاہر نہ کرے بلکہ اللہ سے ڈر کر خود کو گناہ گار تصور کرے تو وہ بہت سی ایسی خوتین سے بہتر ہے جو جو دکھاوے کا پردہ کرتی ہیں۔
یاد رہے کہ آج کے معاشرے میں ضروری نہیں کہ کم پردہ کرنے والی خاتون یا ایک فیشن ایبل عورت گناہ گار ہی ہو یا ایک باپردہ خاتون ہر حال میں پاکباز ہی ہو۔ بہت سی خواتین ہم نے ایسی بھی دیکھیں جو بظاہر زیادہ پرہیز گار نظر نہیں آتیں لیکن انھوں نے اپنی زندگی میں ایک نماز بھی قضا نہیں کی ہوگی۔
جبکہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے برقعہ پوش خاتون کو رمضان کے با برکت مہینہ میں کھاتے پیتے ہوئے دیکھا۔اس طرح کی کئی اور مثالیں بھی موجود ہیں۔ لہذا نتیجہ یہ نکلا کہ عورت کے پردہ سے زیادہ اہمیت اسلام میں کسی چیز کی نہیں ہے بشرطہ کہ یہ پردہ خدا سے ڈر کر یا خدا کے حکم کی تعمیل کرنے کے لیے کیا جائے
نہ کہ دکھاوے یا گھر کے کسی بڑے سے ڈر کر۔ ایسے پردے سے بہتر ہے کہ ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں مشرقی تہذیب پر اکتفا کریں۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ملک اور معاشرے میں آج بھی ایسی اسلام پسند ان گنت خواتین موجود ہیں جو ہر حا ل میں پردے کا اہتمام کرتی ہیں۔
یہ دنیاوی شادی بیاہ کی رسومات ان کے پردے کے راستے میں حائل نہیں ہو سکتیں۔ دراصل یہ وہ خواتین ہیں کہ جن کا ظاہر اور باطن ایک ہے اور وہ اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ خدا کا حکم سب سے بڑھ کر ہے اور یہ دنیا کی رنگینی چار دن کی چاندنی ہے۔ لہذا یہ خواتین خدا کی نظر میں افصل ترین ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب مرد و خواتین کو اسلام کے راستے پر چلنے کی کو ششوں میں مصروف رکھے۔ بے شک انسان خطا کا پتلا ہے اور وہ رب، رب رحیم ہے جو اپنے بندے کو معاف کرنے کا بہانہ تلاش کر رہا ہوتا ہے۔