16دسمبر 1971کو بی بی سی ریڈیو پر جب یہ خبر نشر ہو ئی کہ مشرقی پاکستان کی پا ک فوج نے ہتھیا ر ڈال دئیے تو سا رے لو گ جیسے سکتے میں آگئے اور کچھ لو گ دھا ڑیں ما ر ما ر کر رو رہے تھے
+j وجہ یہ ہوئی کہ جنگ کی صورتحال جا ننے کے لئے صرف ریڈیو پا کستا ن سنتے اور اخبا رات پڑھتے سخت سنسر شپ کی وجہ سے وہا ں سب اچھا اور مشرقی پاکستان کہ مو ثر دفاع اور دشمن کو منہ تو ڑ جواب دینے جیسی خبریں نشر ہو تی تھیں۔
مغربی اور مشرقی پا کستان میں رابطے کا فقدان تھا اور مغربی پا کستان میں رہنے والوں کو مشرقی پا کستان کی دگر گو ں صورتحال سے لا علم رکھا گیا تھا ہتھیا ر ڈالنے کی خبر جیسے ان کے سرو ں پر بم بن کر گر ی۔ اب اگر ہم پا کستا ن کے آج کے حا لات کو دیکھتے ہیں تو با لکل ویسے ہی بلو چستا ن‘ خیبر پختو نخواہ اور قبا ئلی علا قہ جا ت کے حا لا ت کو مفلوج کر دیا ہے
۔ پنجا ب سندھ اور اسلا م آباد والو ں کے نزدیک سب اچھا اور کنٹرول میں ہے جیسی نا رمل صورتحال اور بے بسی کی سی کیفیت ہے۔ نا دان حکو متیں خبرو ں پر سخت کنٹرو ل اور سنسر شپ نا فذ کر کے سمجھ بیٹھی ہیں کہ اس سے حالات قابو میں آجا ئیں گے جو کہ سراسر خو د کو دھوکہ دینے جیسا ہے
کسی بھی ریاست میں عوام پر ائم اسٹیک ہو لڈرز ہوتے ہیں اور سیا سی مداخلت سے عوام کو لا تعلق رکھنا المیو ں کو جنم دیتا ہے ااوربند کمرو ں کے فیصلو ں سے سب سے زیادہ متا ثر عوا م ہی ہو تے ہیں
۔ عو ام کی اطلاعات تک رسا ئی جہا ں عو ام کا آئینی حق ہے وہیں ریا ست کے لئے بھی سو د مند ہے۔ عو امی دبا ؤ اکثر حکو متو ں کو غلط فیصلے تبدیل کر نے اور درست فیصلے کر نے پر مجبو ر کر دیتا ہے
۔ آج خیبر پختو نخو اہ بلوچستان اور قبائلی علا قوں کے معاملا ت سے پنجا ب اور سندھ سے کو ئی رابطہ نہیں ہے اور اس و جہ بھی غا لبا ا ن دو صو بو ں میں سو ل وار جیسی صورتحا ل جنم لے رہی ہے۔
بڑے عوامی احتجا ج ہو رہے ہیں اور سندھ اور پنجاب میں ان کی مو افقت یا مخا لفت میں کو ئی جنبش تک نظر نہیں آتی جیسے یہ سب کچھ کسی دو سرے ملک میں ہو ان دو نو ں صو بو ں سے جو فو ٹیجز آرہی ہیں وہ کا فی تشویشنا ک ہیں۔
بنگلہ دیش کے حالا ت پر نظر ڈالی جا ئے تو پتہ چلتا ہے کہ پا نچ اگست 2024 کا بیج در اصل سات دسمبر 1970میں بویا گیا تھا اس دن متحدہ پا کستان کا آخری الیکشن ہو ا تھا
جس میں شیخ محیب الرحمن کی عو امی لیگ نے مشرق پا کستا ن میں قومی اسمبلی کی 162سیٹو ں میں سے 160سیٹیں حا صل کر لی تھیں جبکہ مغربی پا کستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی 81سیٹں لی تھیں شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت تھی
اخلا قی اور دستو ری لحا ظ سے حکو مت اس کا حق تھا لیکن ضد اور ما رشل لا ء ایڈ منسٹریٹر جنرل یحیٰ خا ن نے اسے یہ حق نہیں دیا اور پھر آگے چل کہ شیخ مجیب الرحمن نے جو راستہ استعما ل کیا وہ غلط نکلا وہ ریا ست کے ساتھ لڑ پڑا اور اس کے نتیجے میں ملک ٹو ٹ گیا۔
اس نے 16دسمبر 1971کو بھارت کی مدد سے پا ک آرمی کو ہتھیار ڈالنے پر مجبو ر کر دیا یہ مجیب الرحمن کی بڑی سیا سی غلطی تھی اور اس کا خمیا زہ اسے اور اس کی نسل کو بھگتنا پڑا
شیخ مجیب نے ستو ط ڈھا کہ کے دو ران عو ام کو یقین دلا یا تھا کہ بنگا لی مغربی پا کستان اور پاک آرمی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں ہم اگر مغربی پا کستان سے جا ن چھڑالیں تو ہم خو شحا ل اور ترقی یا فتہ ہو جا ئیں گے۔
وہ بنگا لیو ں کو بھا رت کے قریب لے آیا تھا لیکن اس کھیل میں وہ یہ بھو ل گیا تھا کہ بنگا لی‘پنجا بیو ں سے زیادہ بھا رت سے نفرت کرتے ہیں یہ پنجا ب یعنی مغربی پا کستا ن کے ساتھ چو بیس سال نکا ل گئے ہیں مگر یہ بھارت کے ساتھ دس سال بھی گزارہ نہیں کر سکیں گے۔ جب بنگلہ دیش آزاد ہو گیا
اور عو امی لیگ کو حکو مت مل گئی تو عوام کو دُور دُور تک وہ پہا ڑ نظر نہ آئے جن کے لئے انہو ں نے قر با نی دی تھی اور جن کے لئے یہ مغربی پا کستان سے الگ ہو ئے تھے۔
شیخ مجیب 1971ء تک بنگا لیو ں کی محرومی پنجا ب کے کھا تے میں ڈالتے ہے لیکن بنگالی آزاد ی کے بعد کیوں پسما ندہ اور محروم ہیں؟ اس کا جو اب ان کے پاس نہیں تھا۔
دوسری طر ف بھا رت تا وان جنگ میں بہت کچھ و صول کر رہا تھا بنگلہ دیش اس زمانے میں پٹ سن کی صنعت میں دنیا بھر میں پہلے نمبر پر تھا مجیب الرحمن کے زمانے میں پٹ سن کی صنعت اور منڈیا ں بھا رت منتقل ہو گئیں
جس سے بھا رتی تا جر امیر اور بنگا لی مزیدغر یب ہو گئے کیو نکہ عوامی لیگ نے آزادی چھینی تھی لہذا یہ سیا سی جما عت سے غنڈہ پا رٹی بھی گئی
اور اس کے بندو ں نے ملک بھر میں قبضے شرو ع کر دیا اس کھیل کا اختتام پندرہ اگست 1975ء رات ہوا بنگلہ دیشی فوج کا ایک دستہ دھا ن منڈی میں شیخ مجیب الرحمن کی رہا ئش گا ہ پر پہنچا اور اسے ان کے خاندان ملا زمین اور دوستوں سمیت قتل کر دیا۔
آپریشن کے بعد شیخ مجیب کی لاش گھر کی سڑھیو ں پر پڑی رہی اس کی دو بیٹیا ں حسینہ واجد اور ریحا نہ ملک سے با ہر تھیں یہ بچ گئیں جبکہ با قی سارا خا ندان ختم ہو گیا
اس کے بعد بنگلہ دیش میں انا ر کی شرو ع ہو ئی اور یہ مختلف وقفوں میں 2024 تک جا ری رہی حسینہ واجد نے 1981ء میں سیا ست شرو ع کی ۔ والد کی جما عت عوامی لیگ کی سر براہ بنی اور پھر ما رتی دھاڑتی آگے بڑھتی چلی گئی کہ 2024تک مجمو عی طو ر پر بیس سال بنگلہ دیش کی وزیر اعظم رہیں
اور یہ
اس لحا ظ سے دنیا کی واحد طو یل المدت خاتون و زیر اعظم ہیں ان کا آخری دور 2009سے شروع ہو کر 2024 تک مسلسل پندرہ سال جا ری رہا یہ دور معا شی لحا ظ بنگلہ دیش کہ لئے اچھا تھا
بر آمدات 45بلین ڈالر تک پہنچ گئیں انفراسٹر کچر اورسو شل ڈویلپمنٹ بھی ہو ئی جبکہ دوسری طرف پا کستان کی معیشت مسلسل ہچکو لے کھا تی رہی
جس کے نتیجے میں ہما رے سیا ستدا نو ں نے بنگلہ دیش کی مثا لیں دینا شروع کر دیں ہم ان کے منہ سے مختلف اوقات میں آج بنگلہ دیش بن جا ئیں و غیرہ وغیرہ سنتے رہے اور ہمیں ان با تو ں پر یقین بھی آتا رہا مگر ہم اس یقین کے دوران ایک با ت بھول جا تے تھے اور وہ با ت حسینہ واجد کی سوچ
۔ قدرت نے حسینہ واجد کو بہت بڑا مو قع دیا تھا اس کو چا ہیے تھا کہ نفرت کی سیا ست ترک کر کے محبت کو اپنا بیا نیہ بنا تی مگر نفسیا تی طو ر پر وہ 1975ء سے آگے نہ بڑھ سکی اس کی نفرت نے ملک کو دو حصو ں یعنی عوامی لیگ کے مخالف میں تقسیم کر دیا
اس نے اپو زیشن جما عت اسلا می اور پاکستان کے ہمدرد بہا ریو ں پر زندگی کا دائرہ تنگ کر دیا۔جما عت اسلا می کے درجنو ں رہنما ؤ ں کو پھانسی لگا دی گئی
خا لدہ ضیاء کو 2018 ء میں جیل میں پھینک دیاگیا اور یہ اس کے بعد با ہر نہیں آسکیں نو بل انعا م یا فتہ معاشی ما ہر ڈاکٹر یو نس کے خلا ف 174مقدما ت بنا دئیے گئے اور یہ جلا وطن ہو نے پر مجبو ر ہو گئے۔ حسینہ واجد نے اپنے خاندان اور پارٹی کے لو گو ں کو پولیس‘ عدلیہ اور فوج میں بھر تی کر لیا گیا پو لیس اس کے آگے گھر کی لو نڈی تھی
عدلیہ عوا می لیگ تھی اور فوج کی سربراہی اس کے خاندان میں تھی موجودہ آرمی چیف جنرل وقار الزماں بھی حسینہ واجد کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں یہ بھارت کو مزید ملک کے اندر لے آئی اس کی بھا رت نو ازی کی وجہ سے بنگلہ دیش کا شما ر بھا رت کی 29ویں ریا ست صوبہ ہو نے لگا
اس کے اندر ایک بد ترین ڈکٹیٹر چھپا ہو ا تھا مخا لفین کو قتل کر ا نا ججو ں کے ذریعے فیصلے لینا اور فو جی افسران کو سرعام ذلیل کر نا اس کا معمو ل تھا جس کا نتیجہ پا نچ اگست 2024ء کی شکل میں نکلا۔
طالب علمو ں کی تحریک شروع ہو ئی اور یہ آگ کی طر ح پو رے ملک میں پھیل گئی حسینہ واجد نے 23جو ن2024ء کو اپنے رشتہ دا ر جنرل و قار الزما ن کو آرمی چیف بنا یا تھا اس کاخیال تھا کہ یہ اس کی حکو مت سیا ست اور ما ل و دولت کی حفا ظت کرے گا
لیکن کچھ دنو ں بعد جنرل وقار الزمان مشو ر ہ دے رہا تھا کہ میڈم آپ کے پا س صرف 45منٹ ہیں آپ استعفیٰ دے کر نکل جا ئیں و رنہ ہجو م وزیر اعظم ہا وس میں داخل ہو کر آپ کو قتل کر دے گا آرمی چیف نے اس پیشکش سے قبل ہیلی کا پٹر سٹا رٹ کرا دیا تھا
لہذا حسینہ واجد دوڑ کر ہیلی کا پٹر میں بیٹھی اور یہ اسے لے کر انڈین شہر اگر تلہ چلا گیا حسینہ واجد جب اگر تلہ اتری تو اس کے پا س ہینڈ بیگ او ر بدن کے کپڑوں کے سوا کچھ نہ تھا اور یو ں حسینہ و اجد کا طو یل ترین سیا ہ کیر یئر ختم ہو گیا۔
x
16دسمبر 1971کو بی بی سی ریڈیو پر جب یہ خبر نشر ہو ئی کہ مشرقی پاکستان کی پا ک فوج نے ہتھیا ر ڈال دئیے تو سا رے لو گ جیسے سکتے میں آگئے اور کچھ لو گ دھا ڑیں ما ر ما ر کر رو رہے تھے
+j وجہ یہ ہوئی کہ جنگ کی صورتحال جا ننے کے لئے صرف ریڈیو پا کستا ن سنتے اور اخبا رات پڑھتے سخت سنسر شپ کی وجہ سے وہا ں سب اچھا اور مشرقی پاکستان کہ مو ثر دفاع اور دشمن کو منہ تو ڑ جواب دینے جیسی خبریں نشر ہو تی تھیں۔
مغربی اور مشرقی پا کستان میں رابطے کا فقدان تھا اور مغربی پا کستان میں رہنے والوں کو مشرقی پا کستان کی دگر گو ں صورتحال سے لا علم رکھا گیا تھا ہتھیا ر ڈالنے کی خبر جیسے ان کے سرو ں پر بم بن کر گر ی۔ اب اگر ہم پا کستا ن کے آج کے حا لات کو دیکھتے ہیں تو با لکل ویسے ہی بلو چستا ن‘ خیبر پختو نخواہ اور قبا ئلی علا قہ جا ت کے حا لا ت کو مفلوج کر دیا ہے
۔ پنجا ب سندھ اور اسلا م آباد والو ں کے نزدیک سب اچھا اور کنٹرول میں ہے جیسی نا رمل صورتحال اور بے بسی کی سی کیفیت ہے۔ نا دان حکو متیں خبرو ں پر سخت کنٹرو ل اور سنسر شپ نا فذ کر کے سمجھ بیٹھی ہیں کہ اس سے حالات قابو میں آجا ئیں گے جو کہ سراسر خو د کو دھوکہ دینے جیسا ہے
کسی بھی ریاست میں عوام پر ائم اسٹیک ہو لڈرز ہوتے ہیں اور سیا سی مداخلت سے عوام کو لا تعلق رکھنا المیو ں کو جنم دیتا ہے ااوربند کمرو ں کے فیصلو ں سے سب سے زیادہ متا ثر عوا م ہی ہو تے ہیں
۔ عو ام کی اطلاعات تک رسا ئی جہا ں عو ام کا آئینی حق ہے وہیں ریا ست کے لئے بھی سو د مند ہے۔ عو امی دبا ؤ اکثر حکو متو ں کو غلط فیصلے تبدیل کر نے اور درست فیصلے کر نے پر مجبو ر کر دیتا ہے
۔ آج خیبر پختو نخو اہ بلوچستان اور قبائلی علا قوں کے معاملا ت سے پنجا ب اور سندھ سے کو ئی رابطہ نہیں ہے اور اس و جہ بھی غا لبا ا ن دو صو بو ں میں سو ل وار جیسی صورتحا ل جنم لے رہی ہے۔
بڑے عوامی احتجا ج ہو رہے ہیں اور سندھ اور پنجاب میں ان کی مو افقت یا مخا لفت میں کو ئی جنبش تک نظر نہیں آتی جیسے یہ سب کچھ کسی دو سرے ملک میں ہو ان دو نو ں صو بو ں سے جو فو ٹیجز آرہی ہیں وہ کا فی تشویشنا ک ہیں۔
بنگلہ دیش کے حالا ت پر نظر ڈالی جا ئے تو پتہ چلتا ہے کہ پا نچ اگست 2024 کا بیج در اصل سات دسمبر 1970میں بویا گیا تھا اس دن متحدہ پا کستان کا آخری الیکشن ہو ا تھا
جس میں شیخ محیب الرحمن کی عو امی لیگ نے مشرق پا کستا ن میں قومی اسمبلی کی 162سیٹو ں میں سے 160سیٹیں حا صل کر لی تھیں جبکہ مغربی پا کستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی 81سیٹں لی تھیں شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت تھی
اخلا قی اور دستو ری لحا ظ سے حکو مت اس کا حق تھا لیکن ضد اور ما رشل لا ء ایڈ منسٹریٹر جنرل یحیٰ خا ن نے اسے یہ حق نہیں دیا اور پھر آگے چل کہ شیخ مجیب الرحمن نے جو راستہ استعما ل کیا وہ غلط نکلا وہ ریا ست کے ساتھ لڑ پڑا اور اس کے نتیجے میں ملک ٹو ٹ گیا۔
اس نے 16دسمبر 1971کو بھارت کی مدد سے پا ک آرمی کو ہتھیار ڈالنے پر مجبو ر کر دیا یہ مجیب الرحمن کی بڑی سیا سی غلطی تھی اور اس کا خمیا زہ اسے اور اس کی نسل کو بھگتنا پڑا
شیخ مجیب نے ستو ط ڈھا کہ کے دو ران عو ام کو یقین دلا یا تھا کہ بنگا لی مغربی پا کستان اور پاک آرمی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں ہم اگر مغربی پا کستان سے جا ن چھڑالیں تو ہم خو شحا ل اور ترقی یا فتہ ہو جا ئیں گے۔
وہ بنگا لیو ں کو بھا رت کے قریب لے آیا تھا لیکن اس کھیل میں وہ یہ بھو ل گیا تھا کہ بنگا لی‘پنجا بیو ں سے زیادہ بھا رت سے نفرت کرتے ہیں یہ پنجا ب یعنی مغربی پا کستا ن کے ساتھ چو بیس سال نکا ل گئے ہیں مگر یہ بھارت کے ساتھ دس سال بھی گزارہ نہیں کر سکیں گے۔ جب بنگلہ دیش آزاد ہو گیا
اور عو امی لیگ کو حکو مت مل گئی تو عوام کو دُور دُور تک وہ پہا ڑ نظر نہ آئے جن کے لئے انہو ں نے قر با نی دی تھی اور جن کے لئے یہ مغربی پا کستان سے الگ ہو ئے تھے۔
شیخ مجیب 1971ء تک بنگا لیو ں کی محرومی پنجا ب کے کھا تے میں ڈالتے ہے لیکن بنگالی آزاد ی کے بعد کیوں پسما ندہ اور محروم ہیں؟ اس کا جو اب ان کے پاس نہیں تھا۔
دوسری طر ف بھا رت تا وان جنگ میں بہت کچھ و صول کر رہا تھا بنگلہ دیش اس زمانے میں پٹ سن کی صنعت میں دنیا بھر میں پہلے نمبر پر تھا مجیب الرحمن کے زمانے میں پٹ سن کی صنعت اور منڈیا ں بھا رت منتقل ہو گئیں
جس سے بھا رتی تا جر امیر اور بنگا لی مزیدغر یب ہو گئے کیو نکہ عوامی لیگ نے آزادی چھینی تھی لہذا یہ سیا سی جما عت سے غنڈہ پا رٹی بھی گئی
اور اس کے بندو ں نے ملک بھر میں قبضے شرو ع کر دیا اس کھیل کا اختتام پندرہ اگست 1975ء رات ہوا بنگلہ دیشی فوج کا ایک دستہ دھا ن منڈی میں شیخ مجیب الرحمن کی رہا ئش گا ہ پر پہنچا اور اسے ان کے خاندان ملا زمین اور دوستوں سمیت قتل کر دیا۔
آپریشن کے بعد شیخ مجیب کی لاش گھر کی سڑھیو ں پر پڑی رہی اس کی دو بیٹیا ں حسینہ واجد اور ریحا نہ ملک سے با ہر تھیں یہ بچ گئیں جبکہ با قی سارا خا ندان ختم ہو گیا
اس کے بعد بنگلہ دیش میں انا ر کی شرو ع ہو ئی اور یہ مختلف وقفوں میں 2024 تک جا ری رہی حسینہ واجد نے 1981ء میں سیا ست شرو ع کی ۔ والد کی جما عت عوامی لیگ کی سر براہ بنی اور پھر ما رتی دھاڑتی آگے بڑھتی چلی گئی کہ 2024تک مجمو عی طو ر پر بیس سال بنگلہ دیش کی وزیر اعظم رہیں
اور یہ
اس لحا ظ سے دنیا کی واحد طو یل المدت خاتون و زیر اعظم ہیں ان کا آخری دور 2009سے شروع ہو کر 2024 تک مسلسل پندرہ سال جا ری رہا یہ دور معا شی لحا ظ بنگلہ دیش کہ لئے اچھا تھا
بر آمدات 45بلین ڈالر تک پہنچ گئیں انفراسٹر کچر اورسو شل ڈویلپمنٹ بھی ہو ئی جبکہ دوسری طرف پا کستان کی معیشت مسلسل ہچکو لے کھا تی رہی
جس کے نتیجے میں ہما رے سیا ستدا نو ں نے بنگلہ دیش کی مثا لیں دینا شروع کر دیں ہم ان کے منہ سے مختلف اوقات میں آج بنگلہ دیش بن جا ئیں و غیرہ وغیرہ سنتے رہے اور ہمیں ان با تو ں پر یقین بھی آتا رہا مگر ہم اس یقین کے دوران ایک با ت بھول جا تے تھے اور وہ با ت حسینہ واجد کی سوچ
۔ قدرت نے حسینہ واجد کو بہت بڑا مو قع دیا تھا اس کو چا ہیے تھا کہ نفرت کی سیا ست ترک کر کے محبت کو اپنا بیا نیہ بنا تی مگر نفسیا تی طو ر پر وہ 1975ء سے آگے نہ بڑھ سکی اس کی نفرت نے ملک کو دو حصو ں یعنی عوامی لیگ کے مخالف میں تقسیم کر دیا
اس نے اپو زیشن جما عت اسلا می اور پاکستان کے ہمدرد بہا ریو ں پر زندگی کا دائرہ تنگ کر دیا۔جما عت اسلا می کے درجنو ں رہنما ؤ ں کو پھانسی لگا دی گئی
خا لدہ ضیاء کو 2018 ء میں جیل میں پھینک دیاگیا اور یہ اس کے بعد با ہر نہیں آسکیں نو بل انعا م یا فتہ معاشی ما ہر ڈاکٹر یو نس کے خلا ف 174مقدما ت بنا دئیے گئے اور یہ جلا وطن ہو نے پر مجبو ر ہو گئے۔ حسینہ واجد نے اپنے خاندان اور پارٹی کے لو گو ں کو پولیس‘ عدلیہ اور فوج میں بھر تی کر لیا گیا پو لیس اس کے آگے گھر کی لو نڈی تھی
عدلیہ عوا می لیگ تھی اور فوج کی سربراہی اس کے خاندان میں تھی موجودہ آرمی چیف جنرل وقار الزماں بھی حسینہ واجد کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں یہ بھارت کو مزید ملک کے اندر لے آئی اس کی بھا رت نو ازی کی وجہ سے بنگلہ دیش کا شما ر بھا رت کی 29ویں ریا ست صوبہ ہو نے لگا
اس کے اندر ایک بد ترین ڈکٹیٹر چھپا ہو ا تھا مخا لفین کو قتل کر ا نا ججو ں کے ذریعے فیصلے لینا اور فو جی افسران کو سرعام ذلیل کر نا اس کا معمو ل تھا جس کا نتیجہ پا نچ اگست 2024ء کی شکل میں نکلا۔
طالب علمو ں کی تحریک شروع ہو ئی اور یہ آگ کی طر ح پو رے ملک میں پھیل گئی حسینہ واجد نے 23جو ن2024ء کو اپنے رشتہ دا ر جنرل و قار الزما ن کو آرمی چیف بنا یا تھا اس کاخیال تھا کہ یہ اس کی حکو مت سیا ست اور ما ل و دولت کی حفا ظت کرے گا
لیکن کچھ دنو ں بعد جنرل وقار الزمان مشو ر ہ دے رہا تھا کہ میڈم آپ کے پا س صرف 45منٹ ہیں آپ استعفیٰ دے کر نکل جا ئیں و رنہ ہجو م وزیر اعظم ہا وس میں داخل ہو کر آپ کو قتل کر دے گا آرمی چیف نے اس پیشکش سے قبل ہیلی کا پٹر سٹا رٹ کرا دیا تھا
لہذا حسینہ واجد دوڑ کر ہیلی کا پٹر میں بیٹھی اور یہ اسے لے کر انڈین شہر اگر تلہ چلا گیا حسینہ واجد جب اگر تلہ اتری تو اس کے پا س ہینڈ بیگ او ر بدن کے کپڑوں کے سوا کچھ نہ تھا اور یو ں حسینہ و اجد کا طو یل ترین سیا ہ کیر یئر ختم ہو گیا۔