راجہ غلام قنبر
کہتے ہیں کہ کسی شادی کی تقریب میں جنات وارد ہوگئے جس سے تمام لوگ ڈر گئے ۔ایک بزرگ جو کچھ ہوش و حواس میں تھے
نے خواتین کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر منہ دھوئیں ۔ڈری سہمی خواتین کو سمجھ نہ آئی اور وہ اپنے میک اپ زدہ چہرے دھو کر آگئیں اور جنات بغیر میک اپ خواتین کو دیکھ کر ڈر کے مارے بھاگ گئے۔یہ پانی ہی کی کرامات تھی کہ انتہائی دلکش نظر آنیوالے چہرے پانی پھرنے کے بعد ڈراونے ہوگئے اور یہ پانی جب بارش کی صورت میں زمین پر برستا ہے تو کئی مقامات پر عارضی چمک دمک۔خوبصورتی اور لیپا پوتی کو دھو ڈالتا ہے اور اس خوبصورتی و ترقی پر فریفتہ دل پسیج جاتے ہیں اور لوگ مارے حیرت کے انگلیاں منہ میں داب لیتے ہیں کہ ہمارے اربوں روپے کے ٹیکس سے تعمیر شدہ پروجیکٹ بارش کی نذر ہوگئے اور اہلیان کلرسیداں و روات اس منظر کو بھگت چکے ہیں کہ کس طرح کلرروات دورویہ روڈ جو ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے چندروز قبل ہونے والی بارشوں کی وجہ سے پانی میں بہہ گئی اور روات سے ساگری تک سڑک جو مکمل ہوچکی ہے جگہ جگہ سے بیٹھ گئی ۔پنڈی پوسٹ ماہ جنوری میں اس امر پر اداریہ کے ذریعے روشنی ڈال چکا ہے کہ ریکارڈ مدت میں تعمیر کی بجائے ارباب اختیار تعمیر کے معیار پر توجہ دیں تاکہ عوام اس منصوبہ سے کما حقہ مستفید ہوسکیں لیکن خلق خدا یہ دیکھ چکی ہے کہ سڑک کا جو حصہ تعمیر ہوا وہ کس معیار کا ہے اور گزرتے گزرتے دیکھا تو انتہائی ناتجربہ کار ہونے کے باوجود راقم کو بھی نظر آیا کہ کس طرح غیر معیاری تعمیرات دن دیہاڑے اور دھڑلے سے ہورہی ہیں ،چند چھوٹے پل جو تعمیر کیے جارہے ہیں وہ بین الصوبائی رابطہ اور بھاری ٹریفک کے بہاؤ والی سڑک کے شایان شان نہیں ہیں۔جب بھاری ٹریفک کشمیر کے علاقوں ڈڈیال ،میرپور اور سہنسہ کوٹلی وغیرہ کے لیے ادھر سے گزرنا شروع ہوئی تو مذکورہ سڑک جو ابھی سے مرمت طلب ہے کیسے اس بھاری ٹریفک کو برداشت کرسکے گی؟یاد رہے کہ یہ پہلا منصوبہ نہیں کہ جس کا یہ حال ہوا ہو اس سے قبل کلرسیداں گریٹر واٹر سپلائی اسکیم بھی اخبارات میں شہ سرخیوں کا حصہ بنی تھی اور افتتاح کے بعد تاحال لوگ اس سہولت سے مستفید ہونے سے محروم ہیں ،جبکہ کلرسیداں بائی پاس کی صورتحال بھی موجودہ دورویہ سڑک سے مختلف نہیں کیونکہ افتتاح کے ابتدائی دنوں میں ہی اس کی مرمت اور بالخصوص پلوں کی مرمت شروع ہوگئی تھی اور حالات سے لگتا ہے کہ اس میگا پروجیکٹ کے پل بھی بائی پاس کے پلوں کا ہی ماڈل ہونگے ۔اس کے علاوہ چوہدری نثار علی خان صاحب کا ایک اور میگا پروجیکٹ بھی ہے کہ جس کو بجا طور پر سیاسی رشوت ،اقربا پروری اور اپنوں کو نوازنے جیسے کارنامے کہا جاسکتا ہے کیوں کہ جن دیہات میں بجلی فراہم کی گئی ہے وہاں پر میٹر کی تنصیب چوہدری صاحب کے مخالفین کو نصیب نہیں ہوئی جبکہ برلب سڑک واقع درجنوں لونی ،نمب ،ٹیالہ،نندنہ راجگان،گکھڑ سنال،چوک پنڈوڑی،موہڑہ کھرٹانہ وغیرہ کو گیس فراہم نہ کی گئی ہے جبکہ ان سے فاصلاتی اعتبار سے دور واقع من پسند دیہات کو گیس فراہم کردی گئی ہے ،البتہ گیس فراہم شدہ علاقوں میں بطور خاص مخالفین کا خیال رکھا گیا کہ وہ مستفید نہ ہو سکیں ۔نہیں معلوم کہ صرف ظاہری خرچ شدہ رقم کو سامنے رکھ کر کیوں میگا پروجیکٹ،میگا پروجیکٹ کاواویلا کیا جا رہا ہے ۔کیونکہ کہ باقی تو کوئی خاصیت نظر نہیں آتی ’’میگا پروجیکٹ‘‘ والی ۔نہ تو ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور پل ترقی میں معاون ہیتے ہین اور نہ ہی گاڑیوں کے حصے نجرے کرنیوالی سڑک عوام کہ آرام دہ سفر کی سہولت فراہم کر سکتی ہے۔ چوہدری نثار علی خان کے میگا پروجیکٹس کیساتھ لگے ہاتھوں چوکپنڈوڑی تا مٹور بیور روڈ کے میگا پروجیکٹ پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں کہ جس کی تعمیر کا کریڈٹ شاہد خاقان عباسی بھی لیتے ہیں اور راجہ ظفر الحق کے حامی بھی۔ اس روڈ کے بھورہ حیال تا مٹور جوڑ کے حصہ کو ایک انٹرنیشنل تعمیراتی کمپنی بھاری ٹریفک لے لیئے نا قابل استعمال قرار دے چکی ہے کیونکہ یہ سڑک بارش سے قبل ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی تھی اور اس کی دوبارہ مرمت کی گئی ہے جو کہ خود دیکھی جا سکتی ہے۔یہ میگا پروجیکٹس کی حالت صرف کلرسیداں کے لئیے ہی نہیں ہے بلکہ اہلیان ٹیکسلا بھی اس غیر معیاری ترقی سے مستفید ہو رہے ہیں یکم مارچ کی اخبارات میں لکھا گیا ہے کہ ٹیکسلا کی شاہراہ فیصل جو حال ہی میں تعمیر ہوئی تھی بھی جگہ جگہ گڑھوں کی صورت اختیا ر کر چکی ہے اور اہلیان ٹیکسلا گڑھوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔آخر میں ہم چوہدری نثار علی خان کی توجہ اس امر کی طرف دلانا چاہتے ہیں کہ کلرروات روڈ کی تعمیرات کے ابتدائی ایام میں کلرسیداں میں کھلی کچہری کے دوران فرمایا تھا کہ’’اب کی بار تعمیراتی کام میں کوئی کوتاہی نہیں بخشی جائے گی( دروغ بر گردن راوی)۔ ہم امید کرتے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان اس بار ضرور اپنی بات کا پاس رکھتے ہوئے اس منصوبہ میں نااہلی اور بددیانتی کے مرتکب عناصر کی ہر صورت گوشمالی کریں گے۔