143

مشرق وسطی کی تازہ صورتحال اور عالمی امن

مشرق وسطی، دنیا کا وہ خطہ جو صدیوں سے تنازعات، جنگوں اور سیاسی کشیدگی کا مرکز رہا ہے،آج بھی عالمی امن کے لیے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔

اس خطے میں جاری کشمکش نہ صرف مقامی آبادی کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے، بلکہ پوری دنیا کی سیاسی، معاشی اور سماجی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔

آئیے اس خطے کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں اور اس کیعالمی امن پر پڑنے والے اثرات کا تجزیہ کرتے ہیں۔فلسطین-اسرائیل تنازعہ مشرق وسطی کی سب سے پرانی اور پیچیدہ کشمکش ہے۔ حالیہ برسوں میں،اس تنازعے نے نئی شدت اختیار کی ہے۔ غزہ پر اسرائیلی حملے، مغربی کنارے پر بستیوں کی توسیع،اور القدس کی حیثیت پر جاری بحث نے صورتحال کو مزید خراب کیا ہے۔

اقوام متحدہ اور دیگر بین االقوامی تنظیموں کی جانب سے امن کی کوششیں ناکام ہوتی نظر آ رہی ہیں، جبکہ دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد کی کمی برقرار ہے۔یہ تنازعہ صرف فلسطینیوں اور اسرائیلیوں تک محدود نہیں ہے۔ اس نے پورے خطے کو متاثر کیا ہے،

خا ص طور پر لبنان، شام اور مصر جیسے پڑوسی ممالک پر۔ مہاجرین کا بحران، معاشی دباؤ، اورسرحدی کشیدگی اس تنازعے کے براہ راست نتائج ہیں۔ عالمی برادری کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ اس مسئلے کا کوئی پائیدار حل تالش کرے۔شام میں 2011 سے جاری خانہ جنگی نے ملک کو تباہی کے دہانے پر ال کھڑا کیا ہے۔

الکھوں شہری ہالک ہوئے، کروڑوں بے گھر ہوئے، اور ملک کی معیشت تباہ ہو گئی۔ اس جنگ نے خطے کے توازن کو بھی متاثر کیا ہے۔ روس، ایران، ترکی، اور مغربی طاقتوں کی مداخلت نے صورتحال کو مزیدپیچیدہ بنا دیا ہے۔شام کا بحران مہاجرین کی لہر کی صورت میں یورپ تک پہنچ گیا، جس نے وہاں کی سیاسی اورمعاشی صورتحال کو متاثر کیا۔ داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کا عروج بھی اسی بحران کا نتیجہ تھا،جس نے عالمی سالمتی کو خطرے میں ڈال دیا۔آج بھی، شام میں مکمل امن قائم نہیں ہو سکا ہے

۔ بشار االسد کی حکومت اگرچہ زیادہ تر عالقوں پرقابض ہے، لیکن ملک کے شمال مشرقی حصے میں کرد فورسز اور ترک حمایت یافتہ باغی گروپ موجود ہیں۔ ملک کی تعمیر نو اور مہاجرین کی واپسی ابھی بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ایران کا جوہری پروگرام مشرق وسطی میں تناؤ کا ایک اور بڑا سبب ہے۔

2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے کے باوجود، امریکہ کے اس معاہدے سے دستبردار ہونے کے بعد صورتحال مزید خراب ہو گئی۔ ایران پر عائد پابندیوں نے نہ صرف اس کی معیشت کو متاثر کیا، بلکہ پورے خطے میں کشیدگی بڑھا دی۔ایران کے جوہری پروگرام کو لے کر اسرائیل اور سعودی عرب جیسے ممالک شدید تشویش کا شکارہیں۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کر لیتا ہے تو یہ خطے میں طاقت کے توازن کو بدل دے گا۔ اس صورتحال نے خلیجی ممالک کو امریکہ سے قریب کر دیا ہے،

جبکہ دوسری طرف ایران اور روس کے تعلقات مضبوط ہوئے ہیں۔حال ہی میں، ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کی خبریں آئی ہیں، جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم، جوہری پروگرام کو لے کر بین االقوامی برادری کی تشویش برقرار ہے۔یمن میں 2014 سے جاری جنگ نے ملک کو تباہی کے دہانے پر ال کھڑا کیا ہے۔

حوثی باغیوں اوریمن کی سرکاری حکومت کے درمیان جنگ میں سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد کی مداخلت نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق، یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران ہے۔یمن کی جنگ نے خلیج کی سالمتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ باب المندب کی آبنائے پر حوثیوں کے حملے عالمی تجارت کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔ اس کے عالوہ، القاعدہ اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں نے یمن میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں، جو کہ عالمی سالمتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے

۔حالیہ دنوں میں، سعودی عرب اور حوثیوں کے درمیان مذاکرات کی خبریں آئی ہیں، جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم، یمن میں مستقل امن کا قیامابھی بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔لبنان، جو کبھی مشرق وسطی کا پیرس کہالتا تھا، آج شدید معاشی بحران سے دوچار ہے۔ 2019

سے جاری یہ بحران کرپشن، سیاسی عدم استحکام، اور کورونا وبا کی وجہ سے مزید بگڑ گیا ہے۔ لبنانی لیرہ کی قدر میں تاریخی کمی، بیروزگاری کی بلند شرح، اور بنیادی ضروریات کی قلت نے عوام کو سڑکوں پر ال کھڑا کیا ہے۔لبنان کا بحران صرف معاشی نہیں ہے۔ حزب ہللا کی موجودگی، اسرائیل سے کشیدگی، اور شام کے بحران کے اثرات نے ملک کو سیاسی طور پر بھی غیر مستحکم کر دیا ہے۔

اس صورتحال نے پورے خطے کے استحکام کو متاثر کیا ہے۔2017 میں قطر کے خالف سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں نے خلیجی تعاون کونسل کو تقسیم کر دیا تھا۔ تاہم، 2021 میں العال معاہدے کے بعد یہ پابندیاں ختم کر دی گئیں اور تعلقات کی بحالی کا عمل شروع ہوا۔یہ پیش رفت خطے کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔ خلیجی ممالک کے درمیان اتحاد خطے کے استحکام اور معاشی ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ تاہم، ایران کے ساتھ کشیدگی اور یمن کے بحران جیسے مسائل ابھی بھی موجود ہیں۔مشرق وسطی کی موجودہ صورتحال پیچیدہ اور چیلنجنگ ہے، لیکن مایوسی کی کوئی وجہ نہیں

۔ حالیہ دنوں میں کچھ مثبت پیش رفت بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ ابراہم معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے تعلقات کی بحالی، سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی، اور یمن میں امن مذاکرات کی کوششیں امید کی کرن ہیں۔ تاہم، مستقل امن کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ فلسطین-اسرائیل تنازعے کا حل، شام میں مکمل امن کا قیام، ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی اتفاق رائے، اور یمن میں جنگ کا خاتمہ ابھی بھی بڑے چیلنج ہیں۔عالمی برادری کو چاہیے

کہ وہ اس خطے کے مسائل کو سنجیدگی سے لے اور ان کے حل کے لیے مشترکہ کوششیں کرے۔ مذاکرات، سفارتکاری، اور باہمی تعاون ہی وہ راستے ہیں جن سے مشرق وسطی میں دیرپا امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ یہ امن نہ صرف خطے کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے ضروری ہے.مشرق وسطی کی صورتحال کا اثر صرف اس خطے تک محدود نہیں ہے۔ یہ پوری دنیا کے امن اور استحکام کو متاثر کرتی ہے۔

اس کے کچھ اہم اثرات درج ذیل ہیں: مشرق وسطی دنیا کا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے واال خطہ ہے۔ یہاں کی کشیدگی عالمی توانائی کی قیمتوں اور سپالئی پر براہ راست اثر ڈالتی ہے، جو پوری دنیا کی معیشت کو متاثر کرتی ہے۔ خطے میں جاری تنازعات دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں۔

یہ تنظیمیں نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی خطرہ ہیں۔ خطے کے تنازعات الکھوں لوگوں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ مہاجرین کا بحران پورے یورپ اور دیگر خطوں کو متاثر کر رہا ہے۔ سویز نہر اور ہرمز کی آبنائے جیسے اہم تجارتی راستے اس خطے میں واقع ہیں

۔ یہاں کی کشیدگی عالمی تجارت کو متاثر کرتی ہے۔مشرق وسطی کے تنازعات اکثر بڑی طاقتوں کو ایک دوسرے کے خالف کھڑا کر دیتے ہیں، جو عالمی سطح پر کشیدگی کا باعث بنتا ہے۔مشرق وسطی میں امن کے قیام کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری ہیں: تمام متنازعہ فریقوں کو مذاکرات کی میز پر النا ضروری ہے۔ بین االقوامی برادری کو اس عمل میں سہولت کار کا کردار ادا کرنا چاہیے۔

خطے کے ممالک کے درمیان معاشی تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔ یہ باہمی انحصار امن کے قیام میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ خطے میں جمہوریت اور انسانی حقوق کو فروغ دینے کے لیے سول سوسائٹی کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرنا انتہا پسندی کے خالف ایک مؤثر حکمت عملی ہو سکتی ہے۔

پانی کی قلت اور موسمیاتی تبدیلی جیسے ماحولیاتی مسائل خطے میں کشیدگی کا ایک بڑا سبب ہیں۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششیں ضروری ہیں۔ مشرق وسطی کی موجودہ صورتحال پیچیدہ اور چیلنجنگ ہے، لیکن ناقابل حل نہیں ہے

۔ خطے کے ممالک، عالمی برادری، اور عام شہریوں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ یہاں دیرپا امن قائم کیا جا سکے۔ یہ امن نہ صرف مشرق وسطی کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے ضروری ہے۔مشرق وسطی کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ خطہ امن، ترقی اور تہذیبی عظمت کا مرکز رہا ہے۔

آج کی چیلنجوں کے باوجود، امید ہے کہ مستقبل میں یہ خطہ پھر سے امن اور خوشحالی کی مثال بن سکے گا۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور مل کر کام کریں۔ کیونکہ آخر کار،مشرق وسطی کا امن دنیا کا امن ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں