مُسلم لیگ ن کے راہنماؤں کے درمیان اختلافات کی بازگشت اب تو ایوانِ وزیراعظم تک جا پہنچی۔فیصل آباد سے چودھری شیر علی ہوں یا رانا ثنائاللہ،وفاقی وزراء میں چودھری نثارہوں یا خواجہ آصف،شاہد خاقان عباسی ھوں یا احسن اقبال اور گوجرخان سے راجہ جاوید اخلاص ھوں یا چودھری افتخاروارثی سب اپنا اپنا سر تسلیمِ خم کرنے کو تیار نظرنہیں۔مرکزی راہنماؤں میں گردش کرتی اختلافات کی خبروں پر وزیراعظم میاں نواز شریف نہ صرف سخت برھم ھوئے بلکہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو اختلافات کے فوری خاتمہ کا ٹاسک بھی دے ڈالا۔لیکن گوجرخان کی سطح پر مسلم لیگ ن کے آپسی اختلافات کے خاتمے کا کوئی حل ہوتا نظر نہیں آرہا۔ گوجرخان سے مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی راجہ جاوید اخلاص کے بعض ناعاقبت اندیش قریبی رفقاء اُن کی موجودگی میں جلسوں،تقریبات میں اپنی ہی جماعت کے حلقہ پی پی 3 سے منتخب رکن پنجاب اسمبلی چودھری افتخار وارثی کے خلاف انتہائی غیر مناسب الفاظ اور ہتک آمیز رویہ اپنائے ہوئے ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار غیر شائستہ زبان کے استعمال میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کے دُھن میں نطر آتے ہیں ،لیکن آفرین ہے رکن پنجاب اسمبلی چودھری افتخاروارثی پر،تمام تر الزامات اور بدزبانی کے باوجود ان کی جانب سے انتہائی صبر اور تحمل کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا،بلکہ اپنے کارکنان کو بھی حوصلہ اور صبر کا درس دیتے ر ہے ،محرم الحرام یقینآ اسی صبر اور استقامت کا سبق دیتا ہے اب حالات اس نہج تک پہنچ چکے کہ راجہ جاوید اخلاص اور افتخاروارثی کے درمیان تمام رابطے منقطع ہوچکے ،بعض اخبارات میں راجہ جاوید اخلاص کا تازہ بیان نظر سے گذراکہ”حلفآ کہتا ھوں چودھری افتخار وارثی سے میرے کوئی اختلافات نہیں” موصوف اور اہلیانِ پاکستان اچھی طرح جانتے ہیں کہ عدالتوں میں گواہان،اراکین اسمبلی اور جنرل پرویز مشرف نے حلف اُٹھانے کے بعداُسی حلف کے کس طرح بخیئے ادھیڑے ہیں ،لیکن ایک بات طے ہے کہ گوجرخان میں مسلم لیگ ن کے باہمی اختلافات کا تحریک انصاف نے خوب جم کر فائدہ اٹھایا، بلدیاتی امیدواران اور پینلز کا نہ صرف کئی ہفتے قبل اعلان کر دیا بلکہ اب تو انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز بھی ہوچُکاہے پیپلز پارٹی ،جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں سے روابط بڑھائے جا ر ہے ہیں،اس سلسلہ میں تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر گوجرخان چودھری جاوید کوثر ، ایڈووکیٹ ذاتی طور پر انتخابی مہم میں اپنا دن رات ایک کئے ہوئے ہیں،ووٹ اور سپورٹ حاصل کرنے میں خا صے پُرامید ہیں جبکہ دوسری جانب مسلم لیگ ن عجب مخمصے او ہیجانی کیفیت سے دوچار نظر آتی ہے ،امیدواران کے حق میں رابطہ مہم تو درکنار‘ امیدواروں کا باقاعدہ اعلان تک نہیں کیا جارہا،حلقہ پی پی 3 کے بلدیاتی امیدواران کو ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالہ سے راجہ جاوید اخلاص مقامی رکن پنجاب اسمبلی چودھری افتخار وارثی کے بجائے ناتجربہ کار احباب/رفقاء سے مشوروں پر قناعت کئے بیٹھے ہیں،اُن کی یہی غلطی شاید اُن کی آخری غلطی ثابت ہو،اس پر شاعرکا ایک مصرع یاد آگیا۔ ع*مُدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی شُنید یہی ہے اگرگوجرخان سے اراکین اسمبلی کے درمیان اختلافات کی سرد جنگ جاری ر ہی تو آمدہ بلدیاتی انتخابات میں گوجرخان سے مسلم لیگ ن کا جنازہ کارکنوں کو اپنے ہی ناتواں کاندھوں پر اٹھانا پڑے گا کیونکہ پیچھے مُڑکر دیکھنے پرمفاد پرست اراکین اسمبلی انہیں اپنی صفوں میں ہرگز نظر نہیں آئیں گے ۔{jcomments on}
133